24 جنوری ، 2022
حیسکول کمپنی کے خلاف اربوں روپے کے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور جعلسازی کے مقدمے کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) میں جاری ہیں۔
حیسکول کی ذیلی کمپنی میں کام کرنے والی ایک خاتون نے بعد میں قومی بینک جوائن کر کے اس کمپنی کے غبن میں اہم کردار ادا کیا، مالکان نے کئی ملین ڈالرز کی غیر قانونی خریدو فروخت بھی کی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق حیسکول کمپنی کے 54 ارب روپے مالیاتی فراڈ کی تحقیقات جاری ہیں، حیسکول کمپنی نیشنل بینک آف پاکستان کی 18ارب روپے کی نادہندہ ہے،کمپنی کی کریڈٹ لائن کو نیشنل بینک آ ف پاکستان کے صدر نے 2 سے 18 ارب روپے کردیا، یہ کریڈٹ لائن نہایت کمزور سکیورٹیز پر بڑھائی گئی،اس کریڈٹ لائن کو بڑھانے میں کریڈٹ ہیڈ ریما اطہر اور ارتضا کاظمی نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ریما اطہر حیسکول کے مالکان میں سے ایک کی ذیلی کمپنی میں کام کر چکی ہیں۔
تحقیقاتی حکام نے مزید بتایا کہ نیشنل بینک نے حیسکول کیلئے بائیکو پیٹرولیم کی مد میں بھی 95 ارب روپے کی جعلی ایل سیز کھولیں، اس رقم کا فیول کبھی لیا ہی نہیں گیا اور یہ صرف حیسکول کے مالی حجم کو بڑھانے کے لیے تھی، نیشنل بینک کے علاوہ دیگر بینکس نے بھی 540 ارب روپوں کی حیسکول کی نان پروڈکٹس ایل سیز کھولیں۔
تحقیقاتی حکام کے مطابق حیسکول اور وائٹول نے اوور انوائسنگ کے ذریعے 42 ملین ڈالرز غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر بھیجے،حیسکول نے اپنے کھاتے داروں کے نام پربھی 117 ملین کا خرد برد کیا۔
حیسکول نے ٹیکس کی مد میں بھی قومی خزانے کو 4 سے 5 ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔
تحقیقاتی حکام کےمطابق حیسکول کے سی ای او سلیم بٹ اور سی او او علی انصاری نے غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر کئی ملین ڈالرز خریدے، یہ افراد پاکستان سے باہر پیسوں کی غیر قانونی منتقلی میں بھی ملوث ہیں۔
حیسکول مڈل مین کے ذریعے پیٹرولیم مصنوعات کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے قومی خزانے کو 9 ارب کا نقصان بھی پہنچا چکا ہے۔
حکام کے مطابق حیسکول کے بانی کو اس مقدمے میں گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر تمام افرادنے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر رکھی ہے۔