06 فروری ، 2022
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواست جمع کرائی۔ اور رجسٹرار سپریم کورٹ نے آٹھ اعتراضات لگا کر واپس کردی۔ اب بار ایسوسی ایشن اعتراضات پر اپیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سیدھی سادی خبر ہے۔۔
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے اس پر کالم لکھ مارنے کی کیا ضرورت۔۔ توجناب کالم ہرگز ہرگز اس خبر پر نہیں۔ وزیر اعظم کے ری ایکشن پر ہے ۔ وزیراعظم نے جتنا سخت ردعمل دیا اور جو لہجہ اختیار کیا وہ ہرگز ان کے شایان شان نہیں تھا۔
فرمانے لگے “سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عدالت میں جاکر کہے گی جو چور ہے ملک لوٹ کر بھاگا ہے اسے ایک موقع اور ملنا چاہئے۔ کہ آکر پھر میچ کھیل سکے۔۔۔وہ بیچارے غریبوں کو جیلوں میں کیوں بند کیا گیا ہے ۔ انکو تو کھولو سب سے پہلے۔۔”
وزیراعظم کے لب و لہجے میں روز بروز فرسٹریشن بڑھتی جارہی ہے اور عدالتوں پر اعتماد کےوہ جتنے مرضی دعوے کرلیں عدالتی فیصلوں اور معاملات پر روز بروز ان کے اور ان کی کابینہ کے بڑھتے تحفظات اور لب کشائیوں نے ان کے باشعور حامیوں کو بھی ششدر کردیا ہے۔
ابھی لاہور ہائی کورٹ کے راوی اربن پراجیکٹ کے غیر قانونی ہونے کا فیصلہ آیا ہی تھا کہ وزیراعظم نے پراجیکٹ کا دورہ کیا اور سائٹ پرکھڑے ہوکر اس کے حق میں تقریر فرمادی۔ اپیل اس سے اگلے روز دائر کی ۔
پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر نظر ثانی کے تفصیلی فیصلے پر وزیر قانون اور وزیراطلاعات نے میڈیا پر فیصلے کو نشانہ بنایا۔
اور اب وزیراعظم ایک ایسی اپیل پر غصہ کھاگئے جو سپریم کورٹ میں ایڈمٹ ہی نہیں ہوئی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بار کی نمائندہ تنظیم ہے اور اگر اس کو مذکورہ فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں یا کوئی آئینی قانونی موشگافیاں ان کے پیش نظر ہیں تو ان کا حق ہے سپریم کورٹ کی رہنمائی چاہیں۔ بنچ اور بار کا رشتہ اسی کو تو کہتے ہیں۔
لیکن وزیراعظم صاحب کا غصہ ان کی اپنی اس ذہنی اختراع کا نتیجہ دکھائی دیتی ہے کہ جس کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ساری سازش ہے اور نوازشریف کو فائدہ پہنچانے کے لئے رچائی جارہی ہے۔ خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا مداوا تو شاید ہی کوئی کرسکتا ہو۔
لیکن وزیراعظم کا طرز عمل ۔۔ اگر بغور پرکھا جائے تو سپریم کورٹ جیسے مقدس ادارے پر ان کی بداعتمادی کا مظہر تو نہیں؟
کیا وزیراعظم کو اعتماد نہیں کہ سپریم کورٹ آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے ہی فیصلہ کرے گی؟ کسی چور یا سزایافتہ کو کیسے فائدہ پہنچنے دے گی؟ تو پھر اتنا پیچ و تاپ کھانے کی کیا ضرورت تھی؟ وزیراعظم صاحب کی انھی جذباتی تقاریر کے نتیجے میں سیاسی سمت اور آئینی شعور سے عاری ایک ٹرول جتھہ عدالتوں اور ججز کو سوشل میڈیا پر مشق ستم بنائے رکھتا ہے۔
وزیر اعظم صاحب ! عدالتوں پر اس طرح کے بیانات سے اثر انداز ہونے کی روایت اچھی نہیں ۔ عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں ۔ اور اپنے وزراء اور مشیران کو بھی احتیاط کا دامن تھامنے کی نصیحت کریں۔آپ کو نظام حکومت کی باگ ڈور تھمائی گئی ہے۔ ۔اس پر توجہ دیں ۔یہ ملک اسی وقت ترقی کرے گا جب سب اپنا اپنا کام کریں گے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو اگر فہم کی کوئی ضرورت ہوگی تو سپریم کورٹ ضرور رہنمائی فرمائے گی۔۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جسے آپ چور کہیں اسے چور سمجھ اور مان لیا جائے اور سزا بھی آپ سنا دیں۔ اور جسے آپ بے قصور ٹھہرائیں وہ بے قصور مان لیا جائے۔ آپ کے بیانات سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ طے کریں گے کون سے معاملے پر کس کو کیا فیصلہ سنانا چاہئے۔یہ کام عدالتوں کو کرنے دیں۔ عدالتی فیصلوں کا احترام کریں ۔ اور عدالتوں میں ہی اپیل کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ آپ وزیراعظم ہیں ۔ جج نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔