11 فروری ، 2022
پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) اپنے عروج پر ہے، کچھ ٹیمیں اپنے فائنل فور میں جگہ پکی کرچکیں۔ کچھ پے درپے شکستوں کے بعد کچھ کامیابیاں سمیٹ کر پوائنٹس ٹیبل پر اگر مگر کے کھیل میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔
جب اس لیگ کا آغاز ہوتا ہے تو پہلے پلیئرز کی ڈرافٹنگ ہوتی ہے کہ کون سی ٹیم کون سا ہیوی ویٹ اپنے اسکواڈ میں شامل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ پلیئرز آزاد ہوتے ہیں اپنے سابقہ معاہدوں اور عہدو پیماں سے کوئی کھلاڑی جو پچھلا سیزن کسی اور ٹیم کے ساتھ کھیلا اب کسی اور فرنچائز میں شمولیت کے لیے پرتول رہا ہوتا ہے، چیئرمین کلیدی کردار ادا کرتا ہے ۔ جیسے نجم سیٹھی بدلے، احسان مانی آئے ، پھر ان کی مدت مکمل ہوئی تو رمیز راجہ۔
کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستانی سیاسی منظر نامے پر بھی دکھائی دے رہی ہے، ڈرافٹنگ کا مرحلہ عنقریب متوقع سیزن کے لیے شروع ہوچکا۔
زرداری صاحب و بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملاقات میں نئی صف بندیوں پر اتفاق کرچکے جبکہ مسلم لیگ ن ایم کیو ایم پاکستان سے ملنے جا رہی ہے تو زرداری صاحب ق لیگ سے پرانا رابطہ پھر استوار کرکے 2009 سے 2013 کے ساتھ کھیلے گئے سیزن کی یاد دلانے پہنچ رہے ہیں جبکہ باپ اپنی فرنچائز سے نالاں اور اگلا سیزن کہاں سے کھیلنا ہے کہ سوال پر غور و فکر کر رہی ہے۔
پچھلی چیمپئن ٹیم کے کئی کھلاڑی اگلے سیزن میں ٹکٹس کے وعدے پر نئی ٹیم میں pick ہونے پر رضامند بتائے جاتے ہیں، لیگ کے اندرونی معاملات سے باخبر ان کھلاڑیوں کی تعداد 15 سے 22 بتا رہے ہیں جبکہ جو فارن پلیئرز مشیر اور اہم عہدوں پر فائز ہیں ان کا کیا بنے گا؟ یہ سوال غیر اہم ہے۔
لیکن کیا اگلا سیزن جلدہونے جارہا ہے ؟ کیونکہ یہ پی ایس ایل، پولیٹیکل سپر لیگ روایتی طور پر عموماً ہر پانچ سال بعد ہوتی ہے، کیا لیگ کے انعقاد پر چھائے غیر یقینی کے بادل بدستور چھائے رہیں گے؟ یا چھٹ گئے ہیں؟ چیئرمین کی مدت مکمل ہونے کے بعد لیگ کا انعقاد ہوگا؟ یا اسی دوران ؟ یہ سوالات زیادہ اہم ہیں۔
اگر معاملہ ویسا سیدھا اور سادہ ہے جیسا کہ وزیر داخلہ سب اچھا ہے کہ گیت گارہے ہیں تو پھر وزیر اعظم عمران خان کو کے پی بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے بنفسِ نفیس خود عوام میں جانے کا اعلان کرنے کی آخر کیا ضرورت تھی؟
حال ہی میں کے پی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج جو کہ حکمران جماعت کے لیے دھچکا ثابت ہوئے ، ایسی ہزیمت اٹھانی پڑی کہ نہ پوچھیےاور پھر وزیر دفاع پرویز خٹک کی حلقوں میں کی گئی تقاریر کہ اگلا مرحلہ نہ جیتے تو اگلے عام انتخابات بھی ہاتھ سے گئے۔ کسی پریشانی کی عندیہ دے رہے ہیں۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ نہ وقت ہمیشہ کسی کا ہوا ہے نہ قسمت کسی ایک پر مستقل مہربان رہتی ہے۔
تو نئے سیاسی سپر لیگ کے سیزن سے پہلے وزیراعظم کا عوام میں جانے کا فیصلہ کہیں اس بات کا اشارہ تو نہیں کہ وزیر اعظم کے کانوں میں you are on your own جیسے الفاظ گونج رہے ہوں؟
پچھلی بار کی سپر لیگ کی چیمپئن اگلی بار بھی وننگ ٹرافی اٹھالے اب یہ تو کہیں نہیں لکھا ہوا اور یہی کھیل کی خوبصورتی ہے کہ جیت کے موقع تمام ٹیموں کے لیے یکساں ہوں اسی کو نیوٹرل ٹورنامنٹ کہا جاتا ہے اور شاید نیوٹرل ٹورنامنٹ اور نیوٹرل امپائرنگ کا دور لوٹ رہا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔