02 مارچ ، 2022
نیب کی طرف سے خود پر بنائے گئے جھوٹے کیس میں ممکنہ گرفتاری اور اس صورت ہونے والی ذلت سے بچنے کے لیے خودکشی کرنے والے بریگیڈئیر ریٹائرڈ اسد منیر کو ان کی موت کے کم و بیش تین سال بعد بلآخر انصاف مل گیا اور انہیں احتساب عدالت نے نئے نیب آرڈیننس مجریہ 2021 کی روشنی میں بری کردیا۔
بریگیڈئیر (ر) اسد منیر نے 16 مارچ 2019 کو نیب راولپنڈی کے رویے کیخلاف احتجاجاً ڈپلومیٹک انکلیو میں واقعے اپنے فلیٹ کے کمرے کی چھت سے لٹک کرخودکشی کی تھی اور اپنے آخری خط میں نیب کے رویے پر افسوس کے ساتھ اپنی بے گناہی کا ذکر بھی کیا تھا۔
منگل کے روز احتساب عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ان کے کیس کا فیصلہ سنایا۔ اسی کیس میں ایک اورملزم حسین کے وکیل عمران شفیق نے اس نمائندے کو بتایا کہ معزز عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ان کی طرف سے محمد حسین کی بریت کی درخواست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نیب کا کیس نہیں بنتا اسے کسی اورجگہ بھیج دیں۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کیس میں سی ڈی اے اور دیگر ادارے بھی تحقیقات کرچکے مگرکسی کو بریگیڈئیر (ر) اسد منیر مرحوم سمیت کسی بھی ملزم کے خلاف کسی فائدے کے حصول کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
عمران شفیق ایڈووکیٹ ماضی میں خود بھی نیب پراسیکیوٹرکے طورپرخدمات انجام دیتے رہے ہیں مگر 2019 میں ہی وہ نیب کے ادارے سے پیشہ ورانہ وجوہات کی بنا پرمستعفی ہوگئے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ نیب راولپنڈی کی طرف سے یہ کیس سال 2018 میں اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب نیب نے وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے سابق ممبرپلاننگ بریگیڈئیر (ر) نصرت اللہ ، سابق ڈائریکٹرغلام سرورسندھو اور ایک ٹھیکے دار محمد حسین کو گرفتار کیا۔
اس وقت نیب کا مؤقف تھا کہ سال 2008 میں اسلام آباد کے ڈپلومیٹک ایریا میں شٹل سروس کے لیے ان افسران نے ٹھیکے دار محمد حسین کو ٹھیکا اور 4.5 ایکڑ قیمتی قطعہ اراضی الاٹ کرکے کرپشن کی ہے تاہم اس وقت سی ڈی اے افسران کا مؤقف تھا کہ یہ کرپشن نہیں کی گئی بلکہ ویزہ حاصل کرنے والے افراد کو سکیورٹی نکتہ نظرکے عین مطابق ڈپلومیٹک انکلیو میں بھیجنے کے لیے قانون کے مطابق سارا کام کیا گیا ہے۔
اسی دوران نیب راولپنڈی اسی کیس میں چپکے سے سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری، سابق ممبرپلاننگ بریگیڈئیر (ر) اسد منیر سے بھی پوچھ گچھ کررہی تھی، اسد منیر کو نیب راولپنڈی بلا کرگھنٹوں بٹھایا جاتا اور ان کی تذلیل کی جاتی۔
اسد منیر خود کسی زمانے میں آئی ایس آئی خیبرپختونخوا کے کمانڈررہنے کے ساتھ ساتھ فوج میں بھی اہم عہدوں پر رہ چکے تھے مگر کسی موقع پر بھی انہوں نے اپنے تعلقات یا ماضی کے عہدوں کا رعب نیب افسران پر نہیں جمایا تھا۔
حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اسد منیر اس وقت کے جج اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ جو آج کل چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے طورپر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور اس وقت سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی جانتے تھے مگر کسی موقع پر ان معزز ججز کا حوالہ بھی نیب کے تفتیشی افسران کو نہیں دیا گیا تھا۔
نیب نے اسد منیر کا نام ای سی ایل پر بھی ڈال دیا تھا مگر اسد منیرنے کبھی یہ معاملہ اپنے دوستوں سے ذکر کیا نہ اپنے سگے (ر) کرنل بھائی خالد منیر سے اس پر کبھی بات کی۔
اسد منیر کے قریبی ساتھیوں نے اس نمائندے کو بتایا تھا کہ وہ انہیں ہتھکڑی میں دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے اور ان کی پریشانی اوربھی بڑھ جاتی تھی جب میڈیا والے کیمروں پرسوال کرتے تھے، وہ ہم سے کہا کرتا تھےکہ ’میں ایسی صورتحال کبھی قبول نہیں کروں گا‘۔
اسد منیر نے 14 مارچ 2019 کی رات 8 بجے اپنے کمپیوٹر پر اپنا آخری خط چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام لکھا اور کہا کہ میں بے گناہ ہوں اور اپنی جان دے رہا ہوں اس لیے کہ جو رویہ میرے ساتھ اپنایا گیا ہے وہ آئندہ کسی کے ساتھ نہ اپنایا جائے، 15 مارچ علی الصبح اسد منیر نے موت کو گلے لگالیا۔
اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس کھوسہ نے بھی اس معاملے پر کوئی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی بجائے نیب سے رپورٹ طلب کی تھی لیکن نیب نے اسد منیر کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں کوئی رپورٹ تیار کی یا نہ کی، اس کا آج تک اسد منیر کے خاندان کو بھی علم نہیں۔
اس نمائندے نے اسد منیر کے بھائی کرنل (ر) خالد منیر سے رابطہ کرکے ان کے بھائی کی بریت کے بارے میں سوال کیا تو وہ بولے ’ میں اس پرکیا کہہ سکتا ہوں، صرف یہی کہوں گا کہ میرا دکھ دوبارہ ہرا ہوگیا ہے‘۔
اس کیس میں سی ڈی اے افسران نصرت اللہ، غلام سرورسندھو ، محمد حسین وغیرہ نیب کی طرف سے گرفتار ہوئے مگر کیس کا انجام یہ نکلاکہ نیب راولپنڈی کے تفتیشی ملزمان کے خلاف کسی فائدے کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں لاسکے تاہم اس سارے معاملے میں گرفتار رہنے والے افسران اور جان تک ہار دینے والے اسد منیر کے گھر والوں پر کیا بیتی اس کا شاید کوئی بھی اندازہ نہ لگا پائے، بشمول ان لوگوں کے جنہوں نے یہ کیس گھڑا تھا۔