07 مارچ ، 2022
اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کے خلاف پولیس ایکشن پر اٹارنی جنرل نے عدالت میں معافی مانگ لی۔
نیشنل پریس کلب کے باہر طلبہ کے احتجاج پر درج مقدمہ ختم کرنےکی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
سیکرٹری انسانی حقوق،ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد سمیت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا یہ ایف آئی آربنتی تھی؟ طلبہ کا یہ کیمپ کب سے لگا ہوا ہے؟
ایمان مزاری ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ کیمپ یکم مارچ سے لگا ہوا ہے۔
وکیل شعیب شاہین ایڈووکیٹ نےکہا کہ طلبہ سےملا، ان کا کہنا ہےکہ سادہ کپڑوں میں لوگ آکر انہیں ہراساں کرتے ہیں، طلبہ کہتے ہیں کہ ہم تعلیم چھوڑ کر اپنی حفاظت کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے نوجوان طلبہ پر امن طور پر بیٹھے ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے ان کے پاس کوئی نہیں گیا، یہ وفاقی دارالحکومت ہے، یہاں تو حکومت کو زیادہ توجہ دینی چاہیے، 2014 میں صدر عارف علوی یہاں پٹیشنر تھے جنہیں عدالت نے ریلیف دیا، وفاقی حکومت کو تو چاہیے کہ طلبہ کو فورم مہیا کرے تاکہ وہ اپنی آواز سناسکیں، ان کی ریشنل پروفائلنگ بھی ہو رہی ہے، یہ تو غیر آئینی اور بہت سنجیدہ بات ہے۔
عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کو روسٹرم پر بلالیا، جسٹس اطہر من اللہ نےکہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نےکہا کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم بھی یہاں ٹھہری ہوئی ہے، لاء اینڈ آرڈرکی صورت حال ہے، پشاورمیں اتنا بڑا واقعہ ہوا پھربھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نےکہا کہ لاپتہ بلوچ طالب علم کا معاملہ بھی دیکھا جائے گا، طلبہ پر امن بیٹھے ہیں، جو ہوا یہ نہیں ہونا چاہیے تھا، میں اس بارے میں معافی چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ نےکہا کہ وزیراعظم یا کسی سینیئر وزیر کو وہاں جانا چاہیے تھا، طلبہ کی آواز دبانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست پر سماعت 21 مارچ تک ملتوی کردی۔