حکومتی رویہ اور مغربی سازشیں

گزشتہ دنوں وزیراعظم نے میلسی میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں یورپی یونین کے سفیروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’ہم یورپی یونین کے غلام نہیں کہ ان کے احکامات مانیں۔‘‘ کسی وزیراعظم کی یورپی یونین پر اس طرح کھلے عام تنقید کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

 یاد رہے کہ روس یوکرین حالیہ تنازع میں پاکستان میں یورپی یونین کے سفیروں نے ایک خط میں حکومت سے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کی اپیل کی تھی جس پر وزیراعظم سیخ پا ہوگئے اور ان کے سخت رویئے سے یورپی یونین سے پاکستان کے سفارتی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

یورپی یونین، پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستان کی یورپی یونین کو ایکسپورٹ7 ارب ڈالر ہے جبکہ یورپی یونین نے پاکستان کو جی ایس پی پلس ڈیوٹی فری سہولت دے رکھی ہے جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں تقریباً سالانہ 3 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ 

اسی طرح یورپی یونین سے پاکستان کو 2.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھی موصول ہوتی ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں کچھ ماہ قبل یورپی یونین سے ہمارے تعلقات میں اس وقت کشیدگی دیکھنے میں آئی جب حکومت نے ایک مذہبی تنظیم کے ساتھ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری اور فرانس میں متعین پاکستانی سفیر کو واپس بلانے جیسا معاہدہ کیا جس کے ردعمل میں یورپی پارلیمنٹ کے تقریباً 300 سے زائد ارکان نے ایک قرارداد پیش کی جس میں پاکستان سے جی ایس پی پلس سہولت واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔

 ابھی اس قرارداد کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ وزیراعظم نے یورپی یونین کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرکے یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدگی کا شکار کردیا جس سے پاکستان کو میسرجی ایس پی سہولت متاثر ہونے کا امکان ہے۔ برطانیہ نے بھی وزیراعظم کے دورہ روس کے باعث گزشتہ ماہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف کا دورہ برطانیہ منسوخ کردیا تھا۔

امریکہ سے بھی پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور متواتر اس طرح کے اشارے موصول ہورہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کی ’’گڈ بک‘‘ میں نہیں۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکی صدر کا پاکستان کو فون نہ کرنا، روس یوکرین جنگ کے دوران وزیراعظم کے دورہ روس کے موقع پر امریکہ کا پاکستان کے نیشنل بینک پر 55 ملین ڈالر کا جرمانہ اور اِس بیان کہ امریکہ، روس اور یوکرین جنگ میں روس کی اخلاقی و سفارتی مدد کرنے والوں سے سختی سے نمٹے گا، سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اب امریکہ کے دوست ممالک میں شامل نہیں۔ 

اسی طرح ایک اہم پیشرفت میں کچھ دن قبل امریکی کانگریس کے سینئر رکن نے امریکی پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے، مالی امداد، دفاعی ساز و سامان کی برآمدات اور فروخت پر پابندی کا مطالبہ کیا گیااور کانگریس نے ا س بل کو امریکی امور خارجہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے۔ یہ اشارے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ سب محض اتفاق نہیں اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بنا جارہا ہے۔

میرے خیال میں ہمیں امریکی اور یورپی اشاروں کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور وزیراعظم کو Absolutly Notاور ’’ہم کسی کے غلام نہیں‘‘ جیسے الفاظ سے اجتناب برتنا چاہئے کیونکہ آج کل کسی ملک کو تباہ کرنے کیلئے میزائل یا بموں کی ضرورت نہیں بلکہ اگر اس ملک کی معیشت کو تباہ کردیا جائے تو وہ ملک تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں FATF کے 27 میں سے 26شرائط پوری کرنے کے باوجود پاکستان کو دہشت گرد فنانسنگ روکنے میں ناکامی پرگرے لسٹ میں برقرار رکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اور امریکہ کی مشترکہ کوشش ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے تاکہ ملکی معیشت مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہوجائے۔

گزشتہ چند سال میں چین اور روس کی قربت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جس سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ دونوں ممالک ایک بلاک تشکیل دے رہے ہیں جس میں پاکستان سمیت دیگر ہم خیال ممالک بھی شامل ہوں گے۔ امریکہ، چین پر معاشی پابندیاں لگاکر اس کی معیشت کو پہلے ہی نقصان پہنچارہا ہے جبکہ روس کو اس جنگ میں جھونک کر اس کی معیشت کو تباہ کردیا جائے گا اور جو ممالک ان سے قریب ہوں گے، انہیں بھی نشانہ بنایا جائے گا تاکہ دنیا پر امریکی اجارہ داری قائم رہ سکے۔ 

روس اور چین ایسی بڑی معیشتیں ہیں جو امریکی پابندیاں کا بوجھ اٹھانے کی استطاعت رکھتی ہیں جبکہ پاکستان جو معاشی طور پر پہلے ہی کمزور ہے اور گزشتہ ساڑھے تین سال میں سیاسی طور پر آئسولیٹ ہوچکا ہے، امریکی اور یورپی ممالک کی اقتصادی و معاشی پابندیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اگر آنے والے دنوں میں امریکہ اور یورپی یونین پاکستان پر کوئی اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہیں تو خاکم بدہن پاکستان بھی عراق، شام، شمالی کوریا اور کیوبا جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوکر انہی کی معیشتوں کی طرح تباہ حال ہوجائے گا اور پاکستان کے دفاعی ادارے مفلوج ہوجائیں گے۔

وزیراعظم کے غیر سیاسی رویے نے تلخیوں کو مزید بڑھایا ہے اور اس طرح حکومت غیر ملکی دشمنوں کا کام آسان بنارہی ہے۔عمران خان یورپ اور امریکہ کیلئے سخت الفاظ استعمال کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ انہوں نے امریکہ اور یورپ کو آنکھیں دکھائی ہیں، اس لئے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جارہی ہے جس کے پیچھے مبینہ طور پر امریکہ اور یورپ ملوث ہیں۔ شاید وہ اس طرح کے الفاظ استعمال کرکے ملک کے ناسمجھ طبقے کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوجائیں مگر پاکستان کو اس کا شدید نقصان پہنچے گا جو ملکی مفاد میں نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔