Time 21 مارچ ، 2022
بلاگ

زرداری اور ن لیگ کے ’’نگینے‘‘

عمران خان کا کھیل ختم کرنے کے بہانے آصف علی زرداری کا کھیل شروع ہو چکا جن کے نشانے پر کون کون ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟ اس بارے میں ابھی کچھ واضح نہیں۔ الیکشن فوری ہوں گے، یہ پارلیمنٹ چار چھ ماہ چلے گی یا اپنی مدت پوری کرے گی؟ اس پر ابھی فیصلہ ہونا ہے۔ 

عمران خان کی حکومت کا اگرخاتمہ ہوتا ہے تو پھر شہباز شریف کو ممکنہ طور پر وزیر اعظم بنایا جائے گا جبکہ آصف علی زرداری کی پوری کوشش ہے کہ پنجاب میں ق لیگ کے پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ زرداری صاحب کا پہلا شو چند روز قبل دیکھا جب مختلف ٹی وی چینلز نے وہاں موجود تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کا عوام کو دیدار کروایا۔ مقصد بلاشبہ عمران خان حکومت کو جھٹکا پہنچانا تھا لیکن سوال یہ اُٹھ گیا کہ آیا جو دیکھایا جا رہا تھا اُس کا اخلاقی جواز کیا ہے؟

 تحریک انصاف کے راجہ ریاض اور دوسرے اراکین بڑے خوش دکھائی دئیے جیسے بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے دودرجن ممبران اسمبلی سندھ ہائوس میں موجود ہیں اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ راجہ صاحب، جن کو آئندہ الیکشن میں ن لیگ کے ٹکٹ کا وعدہ ہو چکا، نے کہا کہ ابھی تو تحریک انصاف کےاور بہت سے اراکین اسمبلی ن لیگ میں شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن ن لیگ کے پاس اتنے ٹکٹ نہیں۔ ن لیگ کو مبارک ہو کہ اچانک ضمیر کے جاگنے پر کیسے کیسے ’’نگینوں‘‘ کو عمران خان کی مخالفت میں آئندہ سمبلی میں بھیجنے جا رہی ہے؟ یہ کیسی ووٹ کی عزت ہے اور ایسے ’’نگینوں‘‘ سے پاکستان کا مستقبل کیسے سنورے گا؟ اس بارے میں نواز شریف ، شہبار اور مریم ہی عوام کوکچھ سمجھا دیں۔ اگر یہ سب کچھ عوام کی آنکھوں سے اوجھل رہتا تو بہتر تھا لیکن ٹی وی چینلز کے ذریعے سب کچھ سامنے لا کر زرداری صاحب نے ن لیگ کے ووٹ کو عزت دو کے اصول کی حقیقت کو کھول کر رکھ دیا۔ ن لیگ نے کبھی کہا تھا کہ لوٹوں کے لیے پارٹی میں کوئی جگہ نہیں لیکن اب اصول بدل گئے کیوں کہ اب جنگ اور محبت میں سب جائز کا اصول اپنا لیا گیا ہے۔

عمران خان حکومت بظاہر اپنی برتری کھو چکی۔ اب کوئی کرشمہ ہی خان صاحب کی حکومت کو بچا سکتا ہے۔ اور جس کرشمے کا تحریک انصاف انتظار کر رہی ہے وہ تو کہتے ہیں کہ نیوٹرل ہو چکا۔ جب تک عدم اعتماد کے معاملات چلتے ہیں اُس وقت تک ملک کے سیاسی اور معاشی حالات مزید خرابی کی طرف گامزن رہیں گے۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا عمران خان کی حکومت کے جانے اور شہباز شریف کی حکومت کے آنے پر معاملات بہتر ہو جائیں گے، خصوصاً جب شہباز شریف کو بہت سے اتحادیوں اور سب سے اہم زرداری صاحب کی حمایت لازمی درکار ہو گی۔ تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی تو ویسے ہی نااہل ہو جائیں گے، ایسے میں شہباز شریف سادہ اکثریت بھی کیسے قائم رکھ سکیں گے؟

ایسے حالات میں شہباز شریف کیا پرفارم کر پائیں گے، اسمبلی کیسے چلے گی؟ ویسے بھی کیا زرداری یہ چاہیں گے کہ شہباز شریف بحیثیت وزیر اعظم کامیاب ہوں یا اُن کی خواہش یہ ہو گی کہ شہباز شریف ناکام ہوں بلکہ بُرے طریقے سے ناکام ہوں۔ ن لیگ اور پی پی پی کی سیاست ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کی بنیاد پر ہی چل سکتی ہے اور ایک کی ناکامی دوسرے کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح عمران خان حکومت گرانے کے لیے پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا ہے تو کیا ن لیگ کبھی چاہے گی کہ پرویز الٰہی کامیاب ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ق لیگ پنجاب میں پاپولر ہو گی جو ن لیگ کو کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ گویا جس طرف ہم بڑھ رہے ہیں وہ شاید کوئی اتنی اچھی منزل نہیں بلکہ مجھے تو ڈر ہے کہ عدم استحکام بڑھ جائے گا۔ 

ہاں اگر نئے الیکشن ہوتے ہیں تو پھر شاید کچھ بہتر صورت حال پیدا ہو جائے لیکن حکومت اوراپوزیشن ایک دوسرے کے گلے ہی پڑے رہیں گے جیسا کہ ہم ماضی میں لگاتار دیکھتے آ رہے ہیںاور اس کا نقصان صرف اور صرف پاکستان کو ہو رہا ہے۔ ایسے میں میری تجویز ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ایک بنیادی متفقہ قومی ایجنڈے کی تیاری کے لیے ساتھ بٹھایا جائے۔ اس ایجنڈے میں معیشت، گورننس، احتساب، ادارہ سازی اور نظامِ انصاف پر ایک میثاق تیار کیا جائے جس پر تمام سیاسی جماعتیں عمل کرنے کی پابند ہوں چاہے کسی کی بھی حکومت ہو۔ 

چیلنج یہ ہے کہ حکومت و اپوزیشن کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے کیوں کہ یہ لوگ تو ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جس نے اپنی طاقت کی بنیاد پر ہمیشہ سیاست میں کبھی کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں اور کبھی دوسری سیاسی جماعت کے حق میں مداخلت کی جس کی وجہ سے معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑتے گئے، اس بار واقعی ایک نیوٹرل ایمپائر کا کردار عوام کے سامنے ادا کرے، حکومت اپوزیشن کو ایک ساتھ بٹھانے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرے، قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کروایا جائے اور پھر اس ایجنڈے پر عمل درآمد کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ گارنٹربن جائیں تا کہ اس ملک کی کم از کم کوئی ایک سمت تو طے ہو۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔