19 مئی ، 2022
اتحادیوں کا تو پتا نہیں لیکن ن لیگ اور شہباز شریف بُری طرح پھنس گئے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ سپریم کورٹ کے لوٹا کریسی کے خاتمے سے متعلق سنائے جانے والے تازہ فیصلہ نے پوری کر دی۔
حمزہ شہباز بحیثیت وزیراعلیٰ پہلے ہی ویک وکٹ پر تھے، اب تو اُن کا عہدے پر قائم رہنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ ویسے وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت بھی کب تک چلتی ہے؟ اس کا بھی کوئی پتا نہیں۔ اگرچہ اتحادیوں نے یہ کہا ہے کہ وہ بڑے اور مشکل فیصلے کریں گے اور الیکشن اگلے سال اگست میں ہی ہوں گے لیکن میری اطلاعات اور رائے کے مطابق ایسا نہیں ہو سکتا۔
الیکشن اسی سال ستمبر اکتوبر میں ہوں گے۔ موجودہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبریں یہ بھی آرہی ہیں اور شیخ رشید صاحب نے تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کر کے ٹی وی پر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پنڈی اور اسلام آباد میں معاشی ایکسپرٹس کے بطور نگران وزیراعظم کے لیے انٹرویوز ہو رہے ہیں۔ وہ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ حکومت اور اتحادیوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ وہ ضمانت نہیں دے سکتے کہ موجودہ حکومت اگلے سال اگست تک جاری رہے گی۔ میری خواہش ہے کہ میرا تجزیہ غلط ثابت ہو لیکن مجھے بظاہر لگتا کچھ ایسا ہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام بڑھے گا جس کے نتیجے میں معاشی مشکلات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس وقت سیاستدان، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، سب کو چاہیے کہ پاکستان کے بارے میں سوچیں، یہی درخواست اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہے۔
اگر اپنے اپنے مفادات کے گرد ہی ہمارے فیصلے اور ہماری سیاست گھومتی رہی تو خطرہ ہے کہ پاکستان کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے جس سے نہ نواز شریف، شہباز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن بچ سکتے ہیں نہ ہی عمران خان کو کوئی فائدہ ہو گا۔
اسٹیبلشمنٹ بھی نقصان میں ہی رہے گی۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے اور جہاں تک ملکی معیشت کا تعلق ہے، اُس بارے میں تو اگر سب نے ذمہ داری کا ادراک نہ کیا تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ بدقسمتی ہے جس تیزی سے معیشت پر ضربیں لگائی جا رہی ہیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سری لنکا جیسی صورتحال اب ہم سے ہفتوں ہی کے فاصلے پر ہے۔
عمران خان حکومت کی پالیسیوں کے باعث معیشت کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ موجودہ شہباز شریف حکومت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جو فیصلے اقتدار میں آتے ہی کرنے چاہیے تھے.
اُن کے حوالے سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جارہا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ڈالر دو سو روپے کا ہو گیا اور اگر بڑے فیصلے یعنی پیٹرول اور ڈیزل کو مہنگا کرنے کے فیصلے نہ کیے گئے تو پھر نجانے ڈالر کی اڑان کہاں جا کر رُکے گی جس کا مطلب ملکی معیشت کی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان ایک نیوکلیئر اسٹیٹ ہے اور ایک اسلامی نیوکلیئر ریاست اگر دیوالیہ ہو جائے تو پھر امریکا و یورپ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں خانہ جنگی کی جو صورتحال ہمارے سامنے آئی ہے، اُس سے کہیں زیادہ خطرناک صورتحال یہاں پیدا ہو سکتی ہے۔
اس لیے جیسا کہ میں پہلے بھی یہ تجویز دے چکا ہوں کہ شہباز شریف حکومت کو چاہیے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی ایک خصوصی میٹنگ بلائی جائے جس میں صدر مملکت، حکومت، فوج، اپوزیشن (بشمول عمران خان)، وزرائے اعلیٰ اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو دو نکاتی ایجنڈے پر مدعو کیا جائے۔ یہ دو نکات معیشت اور الیکشن کے حوالے سے ہوں۔
معیشت کے متعلق سب فریق اتفاقِ رائے پیدا کریں اور اسی کے مطابق فیصلے کریں تاکہ معیشت پر کوئی سیاست نہ ہو۔ الیکشن سے متعلق بھی سب فیصلہ کر لیں کہ الیکشن کب کروانا ہے، کس قسم کی الیکشن اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے ہم پاکستان کو بدامنی اور خطرناک صورتحال سے بچا لیں گے جو سب کے مفاد میں ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔