30 مئی ، 2022
عمران خان سیاسی غلطیاں کرتے جا رہے ہیں۔ غلطیاں بھی ایسی جو اُن کے اور اُن کی پارٹی کے اپنے نقصان میں ہیں۔ دوسروں سے رُوٹھ کر بیٹھ جانا نہ تو نجی زندگی میں کسی لحاظ سے پسندیدہ عمل ہے نہ ہی سیاست میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔
مخالف کسی بھی وجہ سے آپ کو کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ مخالفوں سے تو کبھی ہاتھ بھی نہیں ملاؤں گا، چاہے کتنا ہی اہم قومی مسئلہ ہو، اداروں کے ساتھ مشاورت نہیں کروں گا۔
یہی نہیں بلکہ اگر اداروں یا اداروں کے سربراہوں کی کوئی بات یا عمل اچھا نہ لگے تو اُن سے بھی بات چیت بند اور فون بلاک۔ ہر مرض کا علاج احتجاج، جلسے جلوس اوردھرنے نہیں ہو سکتے۔ احتجاج تو سب سے آخری اقدام ہوتا ہے لیکن خان صاحب کے لیے پہلا قدم۔ جو فیصلہ خود کر لیں اُس پر کسی دوسری رائے کی گنجائش نہیں اور خان صاحب کی اس عادت سے اُن کے اپنے رہنما بھی ناخوش ہیں لیکن کسی میں اُن کے سامنے بولنے یا اعتراض کرنے کی جرأت نہیں۔
قریبی ساتھیوں سے آف دی ریکارڈ بات کریں تو تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ لگانا تحریک انصاف کے لیے پہلے دن سے نقصان دہ تھا لیکن خان صاحب اس بارے میں کوئی دوسری بات سننے کو بھی تیار نہ تھے۔ کسی ایک آدھ پارٹی رہنماکو چھوڑ کر کسی سے پوچھ لیں سب کہیں گے کہ خان صاحب کو فوج اور اس کے سربراہ کے متعلق امریکی سازش کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی، یہ بھی کہ فوج کو نیوٹرل اور نیو ٹرل کو جانور کہنا سب غلط ہے لیکن خان صاحب نے جو کہنا ہے وہ کہیں گے۔
انہوں نے اپنے قتل کی سازش کی بھی بات کی لیکن کسی دوسرے کو نہیں معلوم کہ سازش کیا ہے؟ جب عدم اعتماد کی تحریک اُن کے خلاف منظور ہوئی اور اُن کی حکومت ختم ہوئی تو خان صاحب کا فیصلہ آ گیا کہ سب قومی اسمبلی سے استعفیٰ دے دیں۔
بڑی تعداد میں تحریکِ انصاف کے اراکین کا کہنا تھا کہ اس کا فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو گا لیکن بس فیصلہ کر دیا اور اب کہتے ہیں کہ راجہ ریاض جو تحریک انصاف کے منحرف رکن ہیں اُنہیں اپوزیشن لیڈر بنا کر حکومتی اتحادی اپنی مرضی کاچیئرمین نیب لگا رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی بھی کر رہے ہیں۔
یہ اعتراض تو درست ہے کہ راجہ ریاض تو ن لیگ کے ٹکٹ پر ہی آئندہ الیکشن لڑیں گے لیکن کیا یہ درست نہیں کہ اگر قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیتے تو خان صاحب خود اپوزیشن لیڈر ہوتے۔ اب تو جب بھی الیکشن کا فیصلہ ہو گا تو عبوری وزیراعظم کا چنائو بھی ن لیگ ہی کرے گی کیوں کہ وزیراعظم بھی ن لیگ کا اور اپوزیشن لیڈر بھی ن لیگ کا۔ یہ میدان تو خان صاحب نے خود ہی اپنے مخالفین کے لیے کھلا چھوڑا۔ جب فیصلہ کیا کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے تو کسی پارٹی رہنما کو نہیں معلوم تھا کہ مارچ کی تاریخ کیا ہو گی؟ خان صاحب نے بتا دیا تو شکریہ ورنہ اُن کے فیصلے پر سب کو راضی ہی ہونا تھا۔
تحریکِ انصاف کے ایک اہم رہنما جو خان صاحب کے دفاع میں آگے آگے نظر آتے ہیں مجھے اعتماد میں لے کر کہنے لگے کہ خان سے اختلاف کر کے تحریک انصاف سے بھی الیکشن نہیں لڑا جا سکتا۔ ایک مہینہ اسلام آباد مارچ کے لیے مہم چلائی، شہر شہر جلسے اور ریلیاں کیں لیکن پھر اچانک ہی مارچ کو آدھے راستے میں چھوڑ کر پشاور واپس چلے گئے۔ سارے رہنما ہکا بکا رہ گئے اور یہی حالت تحریکِ انصاف کے سپورٹرز کی تھی۔
پارٹی میں کسی سے پوچھیں شاید ہی کسی کو اصل وجہ معلوم ہو ماسوائے اُس بیان کے جو خان صاحب نے خود دیا۔ آدھے رستے مارچ ختم کیا تو ساتھ ہی نئے مارچ کا عندیہ دے دیا اور کہا کہ اگر حکومت نے اُن کے مطالبات نہ مانے تو چھ دن بعد ایک اور مارچ کی تاریخ دیں گے۔ ایک خوش آئند لچک خان صاحب میں یہ ضرور آئی کہ اُنہوں نے مذاکرات کی بھی بات کر دی۔ لیکن اُن کے آس پاس کھڑے پارٹی رہنما آف دی ریکارڈ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ایک مارچ کو آدھے راستے میں چھوڑکر دوسرے مارچ کا اعلان کرنا کیسی سیاست ہے؟
پشاور میں حالیہ ایک پریس کانفرنس میں صحافی کی طرف سے تلخ سوال کیے جانے پر چڑ گئے اور وہاں سے اُٹھ کر چلے گئے۔ نجانے وہ عمران خان کہاں ہیں جو اپنے خلاف تنقید ہنس کر برداشت کر لیا کرتے تھے؟ وہ اب روٹھے سے رہتے ہیں اور جس کی بات کو پسند نہ کریں تواس کا فون بلاک کر دیتے ہیں۔
خان صاحب کواپنے رویے اور فیصلوں پر غور کرنا چاہیے۔ آج بھی اگر وہ عثمان بزدار کو اپنی بہترین چوائس قرار دیتے ہیں توپھر فکر کی بات ہے۔ فکر اس لیے کہ خان صاحب پاکستان کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے رہنما ہیں اور اگر دوبارہ الیکشن جیت کر حکومت میں آ جاتے ہیں تو پھر بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے؟
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔