02 جون ، 2022
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم غلام ہیں۔ ہم امریکا کے غلام ہیں، ہم یورپ کے غلام ہیں، ہم اپنے اُن برادر اسلامی اور دوسرے دوست ممالک کے بھی غلام ہیں جو ہمیں قرض دیتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے تو ہماری مدد بھی کرتے ہیں۔
ہم آئی ایم ایف کے بھی غلام ہیں اور ورلڈ بینک کے بھی۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہ اس وقت پاکستان کو اس غلامی سے آزادی دلانے کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔
اُن کے اس جہاد کا فوری مقصد جلد الیکشن کا انعقاد کروانا ہے تاکہ الیکشن جیت کر وہ پاکستان کو حقیقی آزادی دلوا سکیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو لیکن سمجھ نہیں آتی کہ جس آزادی کی وہ بات کر رہے ہیں وہ الیکشن جیت کر کیسے حاصل کرلیں گے؟ الیکشن تو اُنہوں نے پہلے بھی جیتا اور ساڑھے تین سال سے کچھ عرصہ زیادہ حکومت بھی کی لیکن غلامی تو ہماری ویسی کی ویسی رہی۔ اس غلامی کا تعلق ہماری خراب معیشت سے ہے۔
2018کا الیکشن جیتنے سے پہلے خان صاحب کہتے تھے کہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا، وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اُن سے پہلے کی حکومتوں نے بہت قرضے لے لیے، وہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کا عدہ کرتے تھے لیکن جب اُن کی حکومت آئی تو وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس گئے بلکہ اپنے ایک وزیر خزانہ اسد عمر کو اس لیے فارغ کیا کہ آئی ایم ایف کے پاس دیر سے کیوں گئے۔
آئی ایم ایف سے ہی متعلق ایک پاکستانی کو گورنر اسٹیٹ بینک بھی بنا دیا۔ پرانے قرضے کیا چکانے تھے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے خود لے لیے اور اس اسپیڈ سے لیے کہ پاکستان کے قیام سے 2018 تک کل قرضوں کا تقریباً ستر، اسی فیصد اپنے ساڑھے تین برسوں میں لے لیا۔
اپنے پورے دور میں کبھی سعودی عرب دوڑتے رہے، کبھی عرب امارات گئے تو کبھی چین۔ مقصد پاکستان کے لیے پیسے مانگنا تھا تاکہ پاکستان کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
وہ امریکا کے دورے پر بھی گئے، ٹرمپ سے بھی ملے اور جب ٹرمپ چلے گئے تو نئے امریکی صدر جو بائیڈن کے فون اور اُن سے ملاقات کی خواہش ہی کرتے رہے۔
خان صاحب نے ایک سے زیادہ بار اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران یہ تسلیم کیا کہ اُنہیں دوسرے ممالک سے بھیک مانگتے ہوئے بڑی شرم آتی ہے لیکن کیا کریں، پاکستان کے لیے ایسا کرنا پڑتا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف اپنے پروگرام کے ذریعے پاکستان پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرتا ہے۔
عمران خان سے پہلے بھی ہمارے حکمران یہی کرتے رہے۔ دوست ممالک سے مدد مانگتے رہے، آئی ایم ایف کے پاس بار بار جاتے رہے، ہر ایک نے احتیاط کی کہ کچھ ایسا نہ ہو کہ امریکا ناراض ہو جائے، یورپ کی بھی خوشنودی سب نے چاہی تاکہ پاکستان کو وہاں سے بہتر تجارت ملے۔
خان صاحب کی رخصتی کے بعد شہباز شریف آئے وہ بھی سعودی عرب گئے، عرب امارات کا بھی دورہ کیا، چین سے بھی بات چیت کر رہے ہیں تاکہ موجودہ مشکل معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی پیسہ مل جائے۔
شہباز حکومت بھی بےچینی سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کر رہی ہے تاکہ عمران خان کی حکومت کے آخری دنوں میں معطل کیا گیا آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو سکے اور اس سلسلے میں پیٹرول اور ڈیزل بھی مہنگا کیا، بجلی اور گیس بھی مہنگی کی جا رہی ہے۔
خطرہ یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملا تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا اور یہ دور کی بات نہیں بلکہ ایک دو ماہ تک یہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
اگر ہم سمجھنا چاہیں بلکہ میرا تو یہ خیال ہے کہ سب سمجھتے ہیں کہ جس غلامی کی عمران خان بات کر رہے ہیں اور جس وجہ سے شہباز شریف اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ Beggers Can't Be Choosers اُس کی اصل وجہ پاکستان کی خراب معیشت ہے۔
اگر ہم معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے تو ہم آزاد نہیں ہو سکتے، ہماری خارجہ پالیسی آزاد نہیں ہو سکتی، یہاں تک کہ ہم اندرونی معاملات پر بیرونی طاقتوں کے دباؤ میں پالیسیاں بناتے اور فیصلے کرتے رہیں گے۔
گویا حقیقی آزادی کا حصول صرف اور صرف معیشت کی مضبوطی سے ہوگا۔ ورنہ حکومت جس کی بھی ہو، ہماری غلامی ختم ہونے والی نہیں۔ کیا خان صاحب الیکشن جیت کر آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ سکتے ہیں؟ کیا اُنہیں پاکستان کو چلانے کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے اب پیسہ نہیں مانگنا پڑے گا؟ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
وہی ہوگا جو بار بار ہوتا رہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے کام کیا جائے اور اس سلسلہ میں سیاست سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی جماعتیں ایک چارٹر آف اکانومی کریں۔
پاکستان میں ایسا سازگار ماحول بنایا جائے کہ پاکستان میں بیرونی انویسٹمنٹ آئے اور لوکل کاروباری طبقے کو بھی پیسہ کمانے اور کاروبار بڑھانے کے خوب مواقع میسر ہوں۔ متفقہ معاشی پالیسیوں کو بنانے کے لیے سب کو ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ کیا عمران خان تیار ہیں؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔