06 جون ، 2022
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے چھوٹے بیٹے سلیمان شہباز کو ترکی کے سرکاری دورہ میں لندن سے بلا کر پاکستانی وفد میں کیوں شامل کیا؟ نہ صرف وفد میں شامل کیا بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے پاکستانی وفد کو دیے گئے عشائیہ میں مرکزی ٹیبل میں اپنے اور ترک صدر کے ساتھ بٹھایا۔
معاملہ یہ نہیں کہ وزیراعظم اپنے بیٹے کو دورے پر ہمراہ کیوں لے گئے اور کیوں مرکزی ٹیبل پر ساتھ بٹھایا۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ سلیمان شہباز پاکستانی عدالتوں کی طرف سے مفرور قررار دیے جا چکے ہیں، وہ اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ کے کیس میں یہاں مطلوب ہیں۔
ایک مفرور جو کہ ریاست کو مطلوب ہے، جو اگر پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوتا ہے تو قانون کے مطابق گرفتار کیا جائے گا، اُسے بیرون ملک کے سرکاری دورے پر وزیراعظم نے اپنے وفد میں شامل کر لیا اور اتنی اہمیت بھی دی کہ ترک صدر کے ساتھ بٹھا دیا۔ اگر شہباز شریف صاحب کو اپنے بیٹے سے یا اُن کے بیٹے کو اپنے باپ سے ملنے کی خواہش تھی تو ترکی جا کر اپنے والد سے ہوٹل میں مل لیتے، کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن سرکاری وفد میں شامل کرنا ایسا ہی ہے جیسے ریاستِ پاکستان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہو۔ اس معاملے میں شہباز شریف نے یقیناً بہت سوں کو مایوس کیا۔
کسی بھی سمجھ دار فرد سے ایسے عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ویسے بحیثیت وزیراعظم شہباز شریف صاحب کی تو یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون اور عدالت سے بھاگے ہوئے ہر شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لئےاقدامات اُٹھائیں، کجا یہ کہ کسی مفرور کو سرکاری وفد میں شامل کر کے اپنے ہی ملک کا مذاق اُڑوائیں۔
نجانے اقتدار حاصل کرنے کے بعد ایسا رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے جیسے قانون کی کوئی حیثیت ہی نہیں اور وزیراعظم بن کر آپ جو جی میں آئے کرسکتے ہیں۔ شہباز شریف پہلے ہی اس لیے تنقید کی زد میں ہیں کہ اُن کا بڑا بیٹا حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بن گیا جبکہ دونوں باپ بیٹا ایسے وقت میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بنے جب اُنہیں مبینہ کرپشن کیسوں میں آئے روز عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔
ابھی گزشتہ روز ہی ایک کیس میں ایف آئی اے نے عدالت سے اجازت طلب کی کہ اُسے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ دونوں ملزموں سے تفتیش کی جا سکے۔ اگرچہ عدالت نے ان دونوں کو گرفتار کرنے کی ایف آئی اے کو اجازت نہیں دی لیکن ہر دس پندرہ دن کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی نہ کسی عدالت میں ملزم کے طور پر پیش ہونا پڑتا ہے جو ایک عجیب ہی صورتحال ہے۔
یقیناً ماضی میں سیاستدانوں کے خلاف خصوصاً نیب نے جھوٹے سچے کیس بنائے اور اس کا شکار شریف فیملی کے ممبران بھی رہے لیکن اب جبکہ شہباز شریف وزیراعظم بن گئے ہیں تو شریف فیملی یا حکومتی اتحاد میں شامل دوسرے رہنماؤں کے خلاف کرپشن کیسوں کو ختم کرنے کے لیے کوئی ایسا طریقہ نہ اپنایا جائے جس سے یہ محسوس ہو کہ حکومت کے پریشر پر ایسا کیا جا رہا ہے۔
میری ذاتی رائے میں ایسے تمام کیسوں میں چاہے وہ شریف فیملی کے خلاف ہوں یا حکومتی اتحاد میں شامل دوسرے رہنماؤں کے خلاف، ان کی تحقیقات اور پروسیکیوشن کو آزاد اور حکومتی دباؤ سے پاک کرنے کے لیے کسی آزاد کمیشن کے تحت کیا جائے۔ اچھی شہرت کے مالک ریٹائرڈ ججوں اور پولیس افسروں پر مشتمل کمیشن بنایا جا سکتا ہے تاکہ یہ شائبہ بھی نہ ہو کی موجودہ وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کے دوسرے رہنما مل ملا کر اپنے اپنے کرپشن کیس ختم کروا رہے ہیں۔
کیس اگر جھوٹے بنائے گئے تو کسی کو فکر نہیں ہونی چاہیے اور اگر ان کیسوں میں جان ہے تو کسی حکمران کو یہ آزادی نہیں ملنی چاہیے کہ وہ اپنے خلاف کیس ختم کرانے کے لیے اپنے ریاستی اختیار کو استعمال کرے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔