06 جولائی ، 2022
صدرِ مملکت عارف علوی نے بالآخر پاکستان میں تعینات امریکہ کے نئے سفیر کیلئے ’’وقت‘‘ نکال ہی لیا کہ وہ اپنی تعیناتی کی اسناد پیش کرسکیں۔ نئے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم تقریباً ڈیڑھ ماہ سے صدرِ مملکت کو اپنی اسناد پیش کرنے کے منتظر تھے اور گزشتہ دنوں انہوں نے یورپی یونین، آسٹریلیا، ترکی، بھوٹان اور سوڈان کے سفیروں کے ہمراہ صدر مملکت کو اپنی اسناد پیش کیں اور اس طرح 4 سال کے طویل عرصے بعد کسی امریکی سفیر کی اسلام آباد میں تعیناتی عمل میں آئی۔
یاد رہے کہ 2018 سے پاکستان میں امریکی سفیر کا عہدہ خالی تھا اور دوسرے درجے کے سفارت کار پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے امور دیکھ رہے تھے جو اس بات کا مظہر تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو وہ اہمیت نہ دی جس کا پاکستان مستحق تھا، تاہم جوبائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں امریکی سینیٹ کی منظوری کے بعد ڈونلڈ بلوم کو پاکستان کیلئے سفیر نامزد کیا گیا۔ ڈونلڈ بلوم ایک کیریئر فارن سروس ڈپلومیٹ ہیں اور مشرقِ وسطیٰ، ایران، عراق، اسرائیل اور افغانستان جیسے بڑے تنازعات کے حل کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تعیناتی سے قبل وہ اسرائیلی شہر یروشلم میں امریکی قونصل جنرل رہ چکے ہیں جب کہ افغانستان میں بھی سفارتی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
سفارتی اسناد پیش کرنے اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی دن امریکی سفیر نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے نئے امریکی سفیر کو پاکستان میں تعیناتی پر مبارک باد دیتے ہوئے اس اُمید کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور پاکستان کی اقتصادی اور آبادیاتی صلاحیت کے باعث امریکہ کے ڈویلپمنٹ فنانس کارپوریشن کی پاکستان میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ بعد ازاں ڈونلڈ بلوم نے امریکی سفارتخانے میں پاکستانیوں کیلئے B1/B2 سیاحتی اور کاروباری ویزوں کی تجدید کیلئے انٹرویو کی چھوٹ کی سہولت میں توسیع کا اعلان کیا جو یقیناً پاکستان کے کاروباری افراد کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔
عمران خان ماضی میں یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ذاتی دوستانہ تعلقات تھے اور ٹرمپ سے ملاقات کو عمران خان نے دوسرا ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران عمران خان کے پاکستانی نژاد امریکی حامیوں نے ٹرمپ کی جیت کیلئے انتخابی مہم بھی چلائی۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ عمران خان حکومت نے امریکی انتخابات کے موقع پر پاکستانی سفارتخانے کو ٹرمپ کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تھی مگر عمران خان کے ان تمام اقدامات کے باوجود ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں امریکی سفیر اسلام آباد بھیجنا ضروری نہ سمجھا جبکہ ٹرمپ 3روزہ دورے پر بھارت بھی گئے مگر پاکستان آنا گوارہ نہ کیا۔
امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی ایک ایسے وقت میں پاکستان میں تعیناتی عمل میں آئی ہے جب عمران خان اور پی ٹی آئی کی سینئر قیادت امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگارہی ہے اور بضد ہے کہ اُن کی حکومت گرانے میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں ملوث ہیں۔
حال ہی میں سابق خاتون اول کی جو آڈیو لیک ہوئی ہے، جس میں وہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے عہدیدار سے یہ کہتے سنی گئی ہیں کہ ’’جو بھی امریکی خط سے انکار کرے، اُسے آپ غدار قرار دے دیں، یہ سب لوگ غداری کی وجہ سے اکٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ اِسی طرح ایک اور آڈیو کی بازگشت ہے جس میں عمران خان اپنے پرنسپل سیکریٹری سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہمیں امریکی خط پر سیاست کرنی چاہئے۔‘‘ دوسری طرف شہباز شریف حکومت اور عسکری قیادت، عمران خان حکومت گرانے کی امریکی سازش کے تمام الزامات کو مسترد کرچکی ہے۔
عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کا شاید انہیں کچھ سیاسی فائدہ حاصل ہو مگر اسٹیبلشمنٹ ان کے امریکہ مخالف بیانیے کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان جب اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں امریکی سازش کا پرچار کررہے تھے، دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ امریکہ سے اچھے تعلقات کی خواہاں تھی۔
ایسے میں جب نئے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم وزیر اعظم سے ملاقات میں پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کا اعادہ کرچکے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ امریکی سفیربنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کرکے ان کی غلط فہمیاں بھی دور کریں تاکہ وہ امریکی خط کو اپنی سیاست اور مقبولیت کیلئے استعمال نہ کرسکیں ، عوام میں امریکہ مخالف فروغ پا رہی نفرت کا خاتمہ ہو اور یہ تاثر قائم ہو کہ امریکہ پاکستان کا دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔