24 جولائی ، 2022
سپریم کورٹ کے جسٹس (ریٹائر) مقبول باقر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں مخصوص بینچ کا ہی مقدمات سننا عدلیہ کی غیر جانبداری کیلئے نقصان دہ ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس اور حال ہی میں ریٹائرہونے والے تین سابق ججوں نے بھی آئین کے آرٹیکل 63اے کی تشریح سے پیدا ہونے والی آئینی قانونی اور سیاسی صورتحال اور مقدمات کے پیش نظر فل کورٹ بنانے پر ذور دیا ہے۔
جیو نیوز نے اس حوالے سے ریٹائرڈ ججز سے بات کی تو سابق چیف جسٹس اور دو حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ججز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس معاملے پر فل کورٹ ہی حل ہے، اسی سے عدلیہ کے وقار غیر جانبداری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو تقویت ملے گی۔
صحافتی تقاضوں کے پیش نظرہم ان کے نام ظاہر نہیں کر رہے۔
دوسری جانب جیو نیوز سے گفتگو میں جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقرکا کہناتھا کہ 63اے کے حوالے سے آئین کو ری رائٹ کرنے کی تباہ کاری شروع ہو گئی ہے، سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں ہے اور بینچوں کی تشکیل کے حوالے سے دیدہ دلیرانہ عدالتی روایات کی خلاف ورزی میرے لیے انتہائی تعجب کی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت حساس آئینی معاملہ ہے، چند مخصوص ججز کا ہر اہم آئینی معاملے پر عدلیہ کے وقار، غیر جانبداری اور انصاف کی فراہمی کے عمل کیلئے تباہ کن ہو گا۔
جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کا کہنا تھا کہ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ 63اے کے مقدمات پر فل کورٹ بنانے سے کسی کو کیا نقصان ہوجائے گا ؟ فل کورٹ یہ معاملہ سنے گا تو ایک متوازن عدالتی حکم ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ میری رائے میں 63 اے پر نظرثانی سمیت تمام متعلقہ مقدمات کو یکجا کر کے فل کورٹ کو سننا چاہیے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف درخواست پر سماعت کل ہوگی۔
حکومت اور اتحادی جماعتوں نے کل فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فل کورٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب، سپریم کورٹ بار کی نظر ثانی درخواست اور متعلقہ درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کرنے کی استدعا کی جائے گی۔