ملک کے دور دراز علاقوں میں ذیابیطس کے مریضوں کو تلاش کرنےکا فیصلہ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

کراچی: ملک میں ذیابیطس کے تشویش ناک حد تک پھیلاؤ  پر اس کی تشخیص اور  بچاؤ کے لیے ماہرین صحت اور معروف ڈاکٹرز  پر مشتمل ٹیم نے ملک کے دور دراز  اور  دیہی علاقوں میں مہم چلانےکا فیصلہ کیا ہے۔

اسکریننگ آؤٹ ریچ ڈسکورنگ ڈائیابٹیز  اور  پرائمری کیئر ڈائیابٹیز  ایسوسی ایشن کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کم ازکم ایسے دس لاکھ لوگوں تک پہنچنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو پاکستان کے گاؤں، دیہات اور قصبوں میں رہائش پذیر ہیں۔

اسکریننگ آؤٹ ریچ ڈسکورنگ ڈائیابٹیز اور  پرائمری کیئر ڈائیابٹیز  ایسوسی ایشن کا ذیابیطس کے مریضوں کی تلاش کے لیے معاہدہ طے پاگیا ہے، معاہدے کے تحت پاکستان بھر میں گاؤں، دیہات اور قصبوں میں رہنے والے افراد کی مفت اسکریننگ کی جائے گی تاکہ ایسے افراد تلاش کیے جائیں جو ذیابیطس سے متاثر ہیں اور انہیں اس بات کا علم نہیں ہے۔

معاہدے کے تحت ملک بھر کے 100 اسپتالوں میں شجرکاری کی جائے گی اور ان پودوں کی رکھوالی کے لیے اسپتالوں کو مالی بھی فراہم کیے جائیں گے ۔

طبی ماہرین کے مطابق پاکستان ذیابیطس سے متاثرہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن آبادی کے تناسب کے اعتبار پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔

کراچی میں ہونے والے معاہدے کی تقریب میں معروف ماہر امراض ذیابیطس اور پرائمری کیئرڈائیابٹیز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فرید الدین ، سیکرٹری ڈاکٹر ریاست علی خان، ادویہ ساز کمپنی فارمیوو کے ڈپٹی سی او جمشید احمد، اینکر پرسن وسیم بادامی اور ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے سربراہ عبدالصمد نے خطاب کیا۔

تقریب کے اختتام پر مہمانوں اور ڈاکٹروں کی بڑی تعداد نے شجرکاری مہم شروع کرتے ہوئے پودے بھی لگائے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر فریدالدین نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیشنل ڈائیابٹیز فیڈریش کے مطابق پاکستان کی 26 فیصد آبادی ذیابیطس کا شکار ہے اور اگر ہم غیر صحت مند طرز  زندگی اپناتے رہے تو آئندہ چند سالوں میں یہ تعداد دگنی ہوجائےگی۔

ڈاکٹر فریدالدین کا کہنا تھا کہ پاکستان نمبرز کے حساب سے ذیابیطس سے متاثرہ افراد کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے لیکن آبادی کے شرح تناسب کے اعتبار سے ذیابیطس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ہمارا پہلا نمبر ہے۔ پاکستانیوں کی اکثریت خود فریبی کا شکار ہے کہ انہیں ذیابیطس کا مرض نہیں ہے اور اس میں پرائمری کیئر فزیشنز کا بھی قصور ہے جن کے پاس ہر چھوٹی بڑی بیماری کے لیے مریض جاتے ہیں،  پرائمری کیئر فزیشن شوگر کی ابتدائی علامات کو جانچ کر اس فرد کو آگاہ کرسکتا ہے بلکہ ساتھ ساتھ  اُس فرد کے خاندان کے دوسرے افراد کی اسکریننگ بھی کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس پروجیکٹ کے تحت اُن علاقوں میں جائیں گے جو شہروں سے دور ہیں یا گاؤں دیہات ہیں، ہم  وہاں لوگوں کی اسکریننگ کریں گے اور وہاں موجود پرائمری کیئر فزیشنز کو بھی تربیت دیں گے تاکہ ان کا فالو اپ بھی جاری رہے اور اسکریننگ کے بعد ذیابیطس سے متاثرہ مریضوں کا علاج اور دوائیں بھی فراہم کی جائیں۔ ذیابیطس میں 80 فیصد سے زائد علاج پرائمری کیئر لیول پر ہی ٹریٹ ہوجاتا ہے جس میں لائف اسٹائل موڈیفکیشن ہے اور کم سے کم اوورل ڈرگز شامل ہیں۔

ادویہ ساز کمپنی فارمیوو کے ڈپٹی سی او جمشید احمد نے بتایا کہ یہ پروجیکٹ بھی ڈسکورنگ ڈائیابٹیزکا ہی حصہ ہے جس کا مقصد ہے کہ اگر ہم ذیابیطس پر قابو نہیں پا سکتے تو کم سے کم اس کے پھیلاؤ کی رفتار کو آہستہ کردیں، اپنا طرز  زندگی بدل دیں اور ورزش کو معمول بنالیں تو اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے اور اگر اس بیماری کو روکنے کی کوشش نہ کی تو اس کے نتیجے میں نہ صرف غیر متعدی بیماریوں کا بوجھ ہمارے ملک پر بڑھے گا بلکہ ان بیماریوں کے نتیجے میں ایک بہت بڑی تعداد معذور بھی ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پروجیکٹ کا مقصد مفت اسکریننگ کے ذریعے ایسے افراد کو تلاش کرنا ہے جو ذیابیطس سے متاثر ہیں یا انہیں مستقبل میں یہ مرض لاحق ہو سکتا ہے پھر ایسے لوگوں کو ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹرز سے کنیکٹ کرنا ہے تاکہ علاج سے متعلق انہیں مفت مشورہ اور  رہنمائی دے سکیں، اس حوالے سے ہم کوشش کر رہے ہیں کہ الخدمت اور چغتائی لیب کو  بھی منصوبے کا حصہ بنا کر مفت علاج کی جانب اپنا قدم بڑھائیں۔

جمشید احمد کا کہنا تھا کہ ہم اس بیماری کے خلاف چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا رہے ہیں، ہمارے ٹول فری نمبر 0800-66766 پر یومیہ پچاس سے زائد فون کالز آر ہی ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ اس تعداد کو بھی بڑھائیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی تین کروڑ آبادی میں سے ایک کروڑ ایسے ہوں گے جو پری ڈائبیٹک ہوں گے اور یہ ایسا الارمنگ نمبر ہے جس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

پرائمری کیئرڈائیابٹیز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ڈاکٹر ریاست علی خان نے کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس کا پھیلاؤ بہت تیزی سے ہو رہا ہے، اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا، اسی لیے ہم نے مل کر اس پروجیکٹ کو شروع کیا ہے تاکہ پاکستان میں 10 لاکھ لوگوں کو اسکرین کیا جاسکے، اگر ہم ان لوگوں کو اسکرین کرلیں گے تو متاثرہ افراد کو ابتدائی اسٹیج پر علاج کی سہولیات فراہم کرکے ان کی زندگی کو بچا سکیں گے اور ذیابیطس کے پھیلاؤ کو روک سکیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اس  پروجیکٹ کے دوران درخت بھی لگائیں گے جس کے ذریعے سرسبز پاکستان صحت مند پاکستان کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچایا جائےگا، 100 کے قریب اسپتالوں میں شجرکاری کی جائے گی اور انہیں ان پودوں کی دیکھ بھال کے لیے مالی کی خدمات بھی مفت فراہم کی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مانسہرہ سے لے کر چائنا بارڈر تک کوئی ذیابیطس کا ڈاکٹر نہیں تھا ہم نے وہاں کام شروع کیا اور ذیابیطس سینٹر بنایا اب وہاں ڈاکٹر موجود  ہیں۔ 

اینکر وسیم بادامی نے کہا کہ مجھے اس نوبل کاز کا حصہ بنانے  پر میں منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ ایک انسان کی زندگی بدلنا یا جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا ایک وبا تھی جو وقت کے ساتھ کم ہوئی لیکن ذیابیطس تو ایک ایسی بیماری ہےکہ اگر اس سے متعلق لوگوں کو ایجوکیٹ نہ کیا اور آگہی نہ دی تو یہ بیماری بڑھتی رہےگی کیونکہ پاکستان میں جو لائف اسٹائل ہے وہ اسے کسی صورت کم نہیں کرے گا، اس کے لیے سب کو اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے تاکہ اپنے گھر والوں کو اس بیماری سے بچائیں۔

ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے سربراہ عبدالصمد نے بتایا کہ ہم نے گزشتہ سال ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کا پروجیکٹ شروع کیا تھا اور  ایک مفت ہیلپ لائن شروع کی تھی جس کے ذریعے مفت اسکریننگ اور مشورےکا سلسلہ شروع کیا تھا، اس پروجیکٹ کے تحت 200 سیٹیلائیٹ سینٹرز  بھی بنائے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ ذیابیطس کے مریضوں تک پہنچا جا سکے اور اگر ہم نے ذیابیطس کے مریضوں کا علاج نہ کیا اور اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کام نہ کیا تو یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوسکتا ہے،  اس وقت پاکستان کے تین کروڑ 30 لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں اور پاکستان کا ہر چوتھا شہری پری ڈائیبیٹک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اس ایک سال میں ذیابیطس کے 5 ہزار نئے مریض ڈسکورنگ ڈائیابٹیز کے پلیٹ فارم سے تلاش کیے ہیں اور وہ اس سے لاعلم تھے۔

مزید خبریں :