Time 01 ستمبر ، 2022
بلاگ

سیاست میں کوئی اتنا گر سکتا ہے؟

کوئی اپنی سیاست کے لئےاتنا گر سکتا ہے کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شوکت ترین کے حوالے سے لیک آڈیو میں جو کچھ سامنے آیا ہے، اُسے آپ غداری کہیں، پاکستانی دشمنی یا کچھ اور لیکن بلاشبہ یہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک حرکت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ بجائے اس کے کہ اس پر شرمندہ ہوا جاتا، معافی مانگی جاتی، تحریک انصاف والے اس کا دفاع کر رہے ہیں اور ایسا رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

 ایک ٹی وی ٹاک شو میں سب سے پہلے فواد چوہدری نے جو کچھ کہا اور پھر آڈیو لیک میں شوکت ترین نے وزیر خزانہ خیبر پختون خوا اور وزیر خزانہ پنجاب کے ساتھ جو گفتگو کی، اُس سے یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہوتی ہےکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی منظوری عمران خان نے دی اورمقصد حکومت پر دبائو ڈالنا ، جلد الیکشن کروانا اور تحریک انصاف کےرہنمائوں پر مقدمات ختم کروانے کے لئے آئی ایم ایف پروگرام کو ہی سبوتاژ کر دیا جائے۔ اسد عمر سمیت شوکت ترین اور وزیر خزانہ کے پی جس ڈھٹائی سے اپنے اس عمل کا ٹی وی چینلز پر آ کر دفاع کر رہے ہیں ،وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

 اس واقعہ کو چند دن گزر چکےہیں لیکن میں ابھی تک اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہا کہ کوئی سیاسی جماعت، کوئی سیاسی رہنما، کوئی پاکستانی کیسے اتنا گر سکتا ہے؟ عمران خان اور پی ٹی آئی بھلے بہت مقبول ہیں، یہ اُن کا حق ہے کہ فوری الیکشن کا مطالبہ کریں اور اس کے لئے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جدوجہد بھی کریں لیکن کوئی الیکشن کے جلد انعقاد اور اقتدار کے فوری حصول کے لیے اتنا بے چین اور Frustrated ہو جائے کہ ریاست کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہ آئے،اسے سیاست نہیں بلکہ پاگل پن ہی کہا جا سکتا ہے۔

 پاکستان دیوالیہ ہو جائے، ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو جائے تو یقیناً یہاں حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہوجائیں گے اور اس بنا پر موجودہ حکومت قائم نہیں رہ سکتی ، نئے الیکشن بھی ممکن ہو جائیں گے لیکن تحریک انصاف نے یہ کیوں نہ سوچا کہ اس سے عمران خان کے الیکشن جیتنے اور دوبارہ حکومت میں آنے کا راستہ تو کھل جائے گا لیکن پاکستان کا کیا حال ہو گا، عوام پر کیا گزرے گی، ڈالر کتنا اوپر جائے گا، پٹرول پانچ سو، ہزار روپے تک مہنگا ہو سکتا ہے اور اس سے جو مہنگائی کا طوفان آئے گا، کیا وہ پاکستان کو حکمرانی کے قابل چھوڑے گا؟

عمران خان اور شوکت ترین نے کیا یہ بھی نہ سوچا کہ پاکستان کو سری لنکا بنا کر وہ حکومت میں تو دوبارہ آ جائیں گے لیکن حکمرانی کیسے کریں گے؟ معیشت کی تباہی کا جوبیج وہ بونا چاہ رہے تھے ، وہ کام اگر ہو جاتا تو تباہ شدہ معیشت کو حکومت میں آ کر وہ کیسے ٹھیک کر سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی اس حرکت کو دیکھ کر اب تو مجھے اس بات کا بھی یقین ہو گیا ہے کہ رواں سال مارچ میں اپنی حکومت کے خاتمے سے پہلے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوے پٹرول اور ڈیزل سستا کرنے کا عمل بھی دراصل آنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگ بچھانے کے مترادف تھا۔ اُس وقت بھی تحریک انصاف نے اپنے سیاسی حریف کو ناکام بنانے کےلئے جو حربہ استعمال کیا وہ دراصل پاکستان کے لئےنقصان دہ تھا، اُس سے عوام کو نقصان پہنچا اور معیشت کو ایک بھنور میں دھکیل دیا گیا کہ معاشی حالات بد سے بدتر ہوئے اور پاکستان کو ڈیفالٹ کے ایک ایسے خطرے کا سامنا کرنا پڑا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔

سیاست کے نام پر یہ سب کھلواڑ ایک ایسے وقت میںکیا گیا جب پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا ہے، آدھا پاکستان ڈوبا ہوا ہے اور کروڑوں عوام اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس آفت سے پاکستان کو کھربوں روپےکا نقصان ہواہے ۔ ہماری معاشی حالت پہلے ہی خراب ہے، اسلئے بیرونی دنیا کی مداد کے بغیر ہم سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کا کام نہیں کر سکتے۔ ایسے میں جب دنیا پاکستان کی مدد کرنا چاہ رہی ہے تو تحریک انصاف کی ایک سابق ایم این اے شاندانہ گلزار نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کےلئے حکومت پاکستان کو امداد نہ دیں۔ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ اس امداد میں کرپشن ہو رہی ہے۔ اس پر اب میں کیا کہوں۔ تحریک انصاف اپنی سیاست میں بہت گر چکی ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔