Time 13 ستمبر ، 2022
بلاگ

شریف کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے؟؟ سب کچھ کردیکھا لیکن معیشت ہے کہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہی !! قدرتی آفات ہیں کہ ایک کے بعد ایک ہمیں گھیرے رکھتی ہیں، اس بار جو سیلاب آیا ہے اُس نے تو تباہی کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ موسمی تغیر میں قصور ترقی یافتہ ملکوں کا ہے اور سزا پاکستان کو مل رہی ہے۔

 دنیاوی لحاظ سے جو ممکن ہے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن افسوس کہ وہ کچھ کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی جس کا حکم ہمیں ہمارا دین ِمتین دیتا ہے۔ موسم کی تبدیلی کی وجوہات پر ضرور غور کریں اور جو عوامل خرابیاں پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اُنہیں بھی درست کرنے کی لازمی کوشش کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات کے مطابق ہمیں بحیثیت قوم اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کو بھی ضرور دیکھنا چاہئے کہ کہاں کہاں کیسی کیسی خرابیاں ہیں اوران کو کیسےدرست کیا جائے؟

 اچھی بات ہے کہ حکومتی سطح پر سیلاب اور اس کے متاثرین کے حوالے سے بڑی سوچ بچار ہو رہی ہے، میٹنگز پر میٹنگز جاری ہیں تو کوئی ایک ایسی میٹنگ بھی بلا لیں جس میں ذرا اس بات پر غور کرلیا جائے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسے کیسے اپنےخالق و مالک کو ناراض کر رہے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم میں اور ہمارے معاشرہ میں ایسی ایسی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں کہ ہمیں اخلاقی اور سماجی طور پر بدترین تنزلی کا سامنا ہے۔ جب کوئی آفت آئے تو متاثرین کی مدد کریں، آئندہ کے لئے ایسی تباہی سے بچنے کی تدبیر بھی کریں، ایسے تمام عوامل جو بظاہر سیلاب کا سبب بنتے ہیں اور تباہی کو بڑھاتے ہیں اُن کا ہر ممکن حد تک ادراک بھی کریں، ڈیم بنائیں، لوگوں کو پکے گھر بنا کر دیں، دنیا کو بھی ضرور باور کروائیں کہ موسمی تبدیلی کا سبب تو دنیا کے بڑے بڑے ممالک ہیں پر اس کا شکار پاکستان ہورہا ہے !!

 تاہم اس کے ساتھ ساتھ اپنی قوم اور معاشرے کے اخلاق اور کردار کو بھی ٹھیک کرنے کا سوچیں۔ گزشتہ روز جنگ اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ،جس کے مطابق پاکستانی معاشرے کی کردار سازی کے لئے عمران خان دور میں قائم کیا گیا ادارہ’’ رحمتہ ا للعالمین اتھارٹی ‘‘ایکٹ منظور ہونے کے باوجود ابھی تک غیر فعال ہے۔ اس اتھارٹی کو عمران خان دور میں صدارتی آرڈننس کے تحت قائم کیا گیا، اس کے چیئرمین اور دوسرے ممبران بھی تعینات کئے گئے۔ اس ادارے نے کام بھی شروع کردیا۔ شہباز شریف حکومت نے اگرچہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کروا دی تھی لیکن پھر بھی یہ ادارہ فعال نہ ہوسکا کیوں کہ قانون سازی کے نتیجے میں کی جانے والی تعیناتیوں کے لئے حکومت کے پاس وقت نہیں۔ 

اس اتھارٹی کا قیام عمران خان حکومت کے چند بہترین کاموں میں سے ایک تھا۔ اگر ہم سوچیں سمجھیں تو بحیثیت قوم ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ ہمیں کردار اور اخلاق کےاعتبار سے بدترین بدحالی کا سامنا ہے اور معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ہر قسم کی خرابی، بُرائی سرائیت کر چکی ہے اور آئے دن ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ موجودہ حکومت سے میری گزارش ہے کہ اس اتھارٹی کو فوری طور پر فعال کرکے معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے کام کو جنگی بنیادوں پر شروع کیا جائے۔

 اس کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارلیمنٹ خواجہ سرا کے نام پر بنائے گئے انتہائی خطرناک اور غیر اسلامی قانون ٹرانس جینڈر ایکٹ پر نظر ثانی کرے اور اس کی اُن تمام دفعات میں ترامیم کرے جو معاشرے میں ہم جنس پرستی، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی کو بڑھاوا دینے کا سبب بن سکتی ہیں۔

 ایک اور معاملہ جو ہماری تباہی کا سبب بن رہا ہے، بدقسمتی سے حکومت اُس کی درستی میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی، وہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے حکم کے مطابق سود کے خاتمہ کا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا اور اب پھر عرض گزار ہوں کہ یہ شریف خاندان اور ن لیگ کی بدقسمتی نہیں تو کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے دو بار (1992 اور 2022) سود کے خلاف اور اس کے خاتمے کا فیصلہ دیا لیکن دونوں بار ان فیصلوں کو حکومتی بینکوں کے ذریعے چیلنج کر دیا گیا۔ دونوں بار ن لیگ کی حکومت تھی، پہلی بار نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اس بار شہباز شریف وزیر اعظم ہیں۔ نواز شریف، شہباز شریف، مفتاع اسمعٰیل، اسحاق ڈار، احسن اقبال اور دوسرے

بڑے بڑے ن لیگی رہنمائوں کو سود کے خاتمے کے معاملہ پر علماء کرام سمیت بہت سوں نے وارننگ دی لیکن اس کے باوجود اسٹیٹ بینک کے ذریعے شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ جب اس اقدام پر شور اُٹھا تو کہا گیا کہ ہم اس اپیل کو واپس لیں گے لیکن ابھی تک ایسا نہیں کیا گیا۔ سود کے معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے سب کو معلوم ہے لیکن اس کے باوجود اگر ن لیگی اور شریف خاندان اس لعنت کے دفاع کا ہی فیصلہ کریں گے تو پھر سوچ لیں، سمجھ لیں کہ سیاسی طور پر، معاشی طور پر بلکہ کسی بھی لحاظ سے کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔