Time 11 اکتوبر ، 2022
بلاگ

کیا یہ حب الوطنی ہے؟

حب الوطنی اور حب المفادات دو الگ اور بالکل مختلف چیزیں ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ حب الوطنی یہ ہے کہ ملک و قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی دینےکے لئے تیار رہاجائے حتیٰ کہ اس راہ میں ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر جان قربان کر دینے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ جیسا کہ افواج پاکستان کا ہر جوان اور افسر تیار رہتا ہے۔

حب المفادات اس کا بالکل اُلٹ ہےکہ ملک و قوم کی پروا کئے بغیر ذاتی و سیاسی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ چاہے ملک و قوم کا جتنا بھی نقصان ہو اور ملک و قوم کو جتنی بھی قیمت ادا کیوں نہ کرنی پڑے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہ نظام قدرت ہے کہ ایسا کرنے والےنامراد ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے مفادات حاصل کرنے کے بجائے سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔

تاہم تاریخ سے عبرت حاصل نہ کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دو قسم کے لوگ ناکام و نامراد ہوتے ہیں وہ دنیا بھی گنوا دیتے ہیں اور آخرت بھی۔ ایک منافق جس کے دل میں کچھ اور زبان پر کچھ ہوتا ہو۔ دوسرے وہ لوگ جو ذاتی مفادات کے حصول کیلئے ملک و قوم کے مفادات پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ میں حب الوطنی یا غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے والا ہوں نہ یہ میرا منصب ہے میں صرف دونوںطرح کی سوچ کی وضاحت کی کوشش کررہا ہوں۔

کچھ عرصہ سے جو کچھ وطن عزیز میں ہورہا ہے۔ اور بعض لوگ جس ڈھٹائی کے ساتھ اس ملک کی جڑوں کو ہلانے، اہم ترین اداروں کو کمزور کرنے حتیٰ کہ بغاوت پر اکسانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، قوم کے ناسمجھ نوجوانوں میںاخلاقی بگاڑ پیداکررہےہیں یہ سب کے سامنے ہے۔ اب قوم فیصلہ کرلے کہ یہ حب الوطنی ہے یا حب المفادات ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان ملکی مفاد کے نام پر ملک و قوم کے مفادات پر ذاتی و سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کا ہرقدم اورکوشش ذاتی و سیاسی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کے سابق وزیر خزانہ کا پنجاب اور کے پی کے وزرا ئےخزانہ کو فون کرکے آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول میں رکاوٹیں ڈالنا کہاں کی حب الوطنی اور کس کے مفاد میں تھا۔؟ بیرونی ممالک اور اوورسیز پاکستانیوں کو سیلاب زدگان کی مدد سے روکنے کی کوششیں کیا قومی مفاد تھیں۔ سی پیک میں رکاوٹیں اور اس پر کام رکوانا کیا ملک کے مفاد میں تھا۔؟ 

کیا دفاعی اداروں اور اہم ترین شخصیات کے بارے میں توہین آمیز الفاظ کا استعمال پاکستان کے دشمنوں کے مفادات کیلئے باعث تقویت نہیں ہے۔؟ ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں کا کونسا کام یا قدم اس دعوے کی سچائی ظاہر کرتا ہے۔ کیا اسلامی معاشرے و دین کی غلط تشریحات کرنے والوں کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟ کیا یہ قوم کو محض ذاتی و سیاسی مفادات کی خاطر گمراہ کرنے کی کوششیں نہیں ۔ کبھی ریاست مدینہ ،کبھی قائداعظم کے بنائے گئے پاکستان کی جگہ نیا پاکستان بنانے کے دعوے۔ کیا ریاست مدینہ میں لوگوں کو اخلاقی اصلاح کی طرف راغب نہیں کیا جاتا تھا؟ یہ کونسی نئی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں ،یہاں تو لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جارہا ہے۔ جلسوں میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ناچ اور بیہودہ حرکات و اچھل کود کونسی اخلاقی تربیت ہے۔؟

عمران خان کتنی ڈھٹائی کے ساتھ آئین و قانون کی بات کرتے ہیں۔ آئین و قانون اگراپنے مفادات کے خلاف ہوں تو وہ مانتے ہی نہیں۔ وہ ہر اُس ادارے،شخص اور آئین و قانون کو مانتے ہیں جو انکے مفاد میں ہو۔ انقلاب کے دعویداروں سے کوئی پوچھے کہ کیا کبھی ناچ گانوں سے بھی انقلاب آیا ہے۔ کیا جس ملک نے ان کو عزت دی اسی کی جڑیں کھوکھلی کرنے والے انقلاب لاتے ہیں۔

دوسروں کو جیل بھرو تحریک پر اکسانے والے خود اپنی گرفتاری سے بچنے کے لئے ضمانتیں کرواتے پھرتے ہیں۔ ان کے موجودہ سب کھوکھلے دعوے بھی پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریاں دلانے کی طرح فریب سماعت ہیں۔ جو نام نہاد دانشور اور صحافی عمران خان کی مقبولیت کا پروپیگنڈہ کرکے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

ان سے کوئی پوچھے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے اور محرومی اقتدار کے بعد عمران خان نے ایسا کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ وہ مقبول ہوئے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کرائے کے، زبردستی لائے ہوئے اور سیر سپاٹے کے لئے آنے والوں کو جلسے کی کامیابی نہیں کہا جاتا نہ ہی یہ مقبولیت کی علامت ہوتی ہے۔ تجربہ کار سیاستدان یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ منہ پر تعریف کرنےوالے خوشامدی ہی اصل دشمن اور آستین کے سانپ ہوتے ہیں۔ عمران خان بدقسمتی سے ایسے ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کی جھوٹی تعریف اور خوشامد کرتے ہیں۔

روز بروز ایسے ہی لوگ عمران خان کو ایک گہری کھائی میں دھکا دے رہے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بعض لوگ ان کو لانگ مارچ پر اکسا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ لانگ مارچ یا دھرنا تو کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن عمران خان ضرور پھنس جائیں گے۔ ان کے بعض ساتھی متواتر کہہ رہے ہیں کہ اس مارچ کی صورت میں خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے۔ پھر نتیجہ تو سب کو معلوم ہے۔ ابھی تو بہت کچھ تبدیل ہونا ہے۔ دعا ہے کہ وہ ہو جس میں ملک و قوم کے لئے خیر ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔