15 اکتوبر ، 2022
سابق وزیراعظم عمران خان اتوار کو پنجاب، کے پی اور کراچی سے7 حلقوں میں ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے تاریخ رقم کرسکتے ہیں کہ جیت کی ان کو امید ہے، کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں اور دوسرا قومی اسمبلی میں واپس نہ آنےکے پختہ مؤقف کے باوجود اس اقدام کے پیچھے ان کی کیاسیاسی اہمیت ہے؟
پی ٹی آئی ایک کے پی اور دوسرا کراچی میں پہلے ہی 2 ضمنی انتخابات جیت چکی ہے لیکن اس کے منتخب ایم این ایز نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا اور نہ ہی عمران کیونکہ وہ پہلے ہی میانوالی سے تاحال ایم این اے ہیں حالانکہ انہوں نے عدم اعتماد سے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا تو ان کی پارٹی دوسری جماعتوں کے لیے جگہ کیوں نہیں چھوڑ رہی؟
شاید وہ صرف ایک مضبوط پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کے ووٹر یا حامی ان کے بیانیے پر آنکھیں بند کرکے آتے ہیں، چاہے وہ قومی اسمبلی میں واپس نہ جائیں لیکن وہ آکر ووٹ دیتے ہیں، عمران کوزیادہ ترحلقوں میں مسلسل مہم چلانے اور اپنے کارکنوں اور حامیوں کو مکمل چارج رکھنےکی وجہ سے واضح برتری حاصل ہے تو وہ سب نہیں تو سات میں سے کتنےحلقے جیت سکتے ہیں کیونکہ اگر وہ سات کے سات جیت کر حیران کردیتے ہیں تو یہ ان کےحامیوں کو مزید چارج کردے گا اور وہ لانگ مارچ کیلئے کوئی بھی لائن آف ایکشن لے سکتے ہیں۔
دوسرا پنجاب میں پی ٹی آئی جوعدم اعتمادکی تحریک سے پہلے مکمل طور پر زوال پذیر تھی اور2021 میں زیادہ ترضمنی انتخابات ہار گئی تھی کوحقیقی پذیرائی ملی اور اس نے اپنی مضبوط مخالف (ن) لیگ کو حیران کر دیا۔
پہلے ضمنی انتخابات میں20 میں سے15نشستیں جیت کر پنجاب میں دوبارہ اقتدارحاصل کر لیا۔
انہوں نے انتخابی محاذ پر کسی جوابی بیانیے کی عدم موجودگی میں ایک اضافی فائدہ بھی حاصل کیا جیسا کہ اس سال 10 اپریل کے بعد ہونے والےکے پی میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سمیت بیشتر ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی، لیکن اس حکمت عملی کے باوجود عمران اور پی ٹی آئی پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے ہچکچا رہے ہیں، جہاں پی ٹی آئی نے 2018 کے بعد تمام منتخب اداروں کو تحلیل کر کے منتظمین کو نامزد کر دیا تھاجو کہ کراچی میں اس کی پوزیشن سے متصادم ہے۔
عمران خان کا قومی اسمبلی کی سات نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ خان صاحب نے خود لیا کیونکہ وہ یہ موقع نہیں دینا چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی نے 2018 میں جو سیٹیں جیتی تھیں، وہ مخالفین کو خاص طور پر ایسے وقت میں مل جائیں جب وہ اسلام آباد مارچ کیلئےکال دینےکے قریب ہی تھے اگر وہ اتوار کے انتخابات میں کلین سوئپ کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف پارٹی کےمومینٹم کو مارچ سے پہلےبہت زیادہ بڑھوتری ملے گی بلکہ پاکستان کے تجارتی مرکز کراچی میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات میں مدد ملےگی جہاں انکی پارٹی قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 25نشستیں رکھتی ہے۔
حکمران پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ(پی ڈی ایم) اور خاص طور مسلم لیگ (ن) کیلئے عمران خان کی پنجاب میں پےدر پے کامیابیاں آئندہ سال الیکشن سے پہلے ایک ڈراؤنا خواب ہو سکتا ہے۔
حیران کن طور پر اتحادی اور ن لیگ اتنے پرجوش اور فعال نظر نہیں آرہے جتنا وہ صوبائی حلقوں کےضمنی انتخابات میں نظر آئےجب مریم نواز نے بھی بڑے جلسے کیے تھے۔ تاہم اگر پی ڈی ایم چند سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی بھی امیدوار عمران کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ حکمران اتحاد کے لیے بہت بڑا بونس ہوگا۔
جہاں تک کراچی کے مقابلے کا تعلق ہے، تو اگر عمران خان این اے237 ملیر میں پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدوار حکیم بلوچ کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تو یہ عمران کے لیے بہت بڑی فتح ہوگی جبکہ این اے 239 کورنگی میں انہیں واضح برتری حاصل ہے۔