16 اکتوبر ، 2022
سابق وزیراعظم عمران خان بھی وہی رونا رو رہے ہیں کہ ان کی حکومت بے اختیار تھی اور فیصلے کوئی اور کرتا تھا۔ اسی طرح کی شکایات سابقہ منتخب وزرائے اعظم بھی کرتے آئے ہیں۔ لیکن ایک بنیادی اصولی فرق کے ساتھ۔
عمران خان کا احتجاج اس امر پہ ہے کہ مقتدرہ جس پرزور حمایت کے ساتھ انہیں حکومت میں لائی اور ”ایک صفحے پر رہنے“ کی برکت سے ان کی حکومت کو جو دوام بخشا گیا تھا، جس میں مخالف سیاسی جماعتوں اور ان کے چوٹی کے رہنماؤں کو ذلیل و خوار اور منتقمانہ احتساب کا نشانہ بھی بنایا گیا، وہ مشفقانہ ہاتھ ان کے سر سے اُٹھ گیا جس کے باعث غیر آئینی و غیر پارلیمانی بیساکھیوں کے چھن جانے پر ان کی حکومت کا تختہ الٹ گیا جسے انہوں نے پہلے امریکی سازش اور اس میں ملوث مقامی شراکت داروں کی ملی بھگت قرار دیا۔
اور جب سائفر لیکس نے ان کی بیرونی سازشی کہانی کا پردہ چاک کردیا تو وہ اب سیدھا سیدھا مقتدرہ کے کارپردازوں کو ”غدار“ قرار دینے پہ اصرار کررہے ہیں۔ گویا غیر آئینی و غیر پارلیمانی بیساکھیوں کا پھر سے حصول ان کا بڑا مدعا ہےجب کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید، بے نظیر بھٹو شہید اور محمد خان جونیجو سے نواز شریف تک تمام وزرائے اعظم سول و ملٹری مقتدرہ کی غیر آئینی، غیرپارلیمانی مداخلتوں اور ریاست کے اندر ریاست کے متوازی اتھاریٹیرئین اسٹرکچرز کو پارلیمنٹ اور منتخبہ حکومتوں کو زیرو زبر کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عوام کے حق حکمرانی اور پارلیمنٹ و سویلین بالادستی کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔
یہ دو متضاد بیانیے ہیں ایک مقتدرہ کی بالادستی اور اس کا بغل بچہ بننے کا ہے اور دوسرا مقتدرہ کو (جس میں عسکری ادارے، عدلیہ اور نوکر شاہی شامل ہے) کی سیاست میں مداخلت اور آئین سے بالا بالا ریاستی طاقت کے متوازی نظام کے خاتمے اور سویلین بالا دستی اور جمہور کی حکمرانی کا بیانیہ ہے۔ بدقسمتی سے سیاست دانوں کے باہمی اختلافات کو مقتدرہ نے خوب استعمال کیا، انہیں مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جس کے باعث جمہوری جدوجہد کا تسلسل بار بار ٹوٹتا رہا، لیکن موجودہ صورت احوالِ ماضی سے اس لیے بھی مختلف نظر آرہی ہے کہ عمران خان کی قیادت میں موجودہ اپوزیشن مقتدرہ کی حمایت کی بحالی کے لیے سر توڑ کوشش کررہی ہےجب کہ اتحادی حکومت اسی مقتدرہ کی مشروط حمایت پہ شاداں ہے، گو کہ اس میں شامل بڑی جماعتیں اب بھی جمہوری آسوں کی یادیں کبھی کبھار تازہ کرتی رہتی ہیں۔
ایک صاف، سیدھا سادا اصولی جمہوری و آئینی موقف کہیں سیاست کی موقع پرستیوں کی راہ داریوں میں گم ہوگیا ہے۔ سیاست اپنا اخلاقی اور جائز جواز کھو بیٹھی ہے۔ بہت سے لیڈر ماضی میں مقتدرہ کے کندھوں پہ سوار ہوکر اقتدار میں آئے بھی تو جب عوامی نمائندگی کا بھوت سوار ہوا تو اپنے ہی آمرانہ محسنوں کے خلاف کھڑے بھی ہوگئے۔ بھلا عمران خان سے کوئی پوچھے کہ جتنی عوامی مقبولیت انہیں اب ملی ہے، اس کے بعد انہیں مقتدرہ کا دوبارہ بغل بچہ بننے کی کیا ضرورت ہے؟
سیاسی لیڈروں میں تبدیلی آتی ہے، اچھی بھی بری بھی۔ لیکن عمران خان کی سیاست کے ضمیر میں کوئی صفتی تبدیلی واقع نہیں ہورہی۔ گھسی پٹی سیاست کو سطحی انقلابی نعروں سے مقبول تو کیا جاسکتا ہے، حقیقی جمہوری ، عوامی تبدیلی نہیں آسکتی۔ ایک پوری نسل ان کی ڈرٹی پالیٹکس کی نذر ہوچکی ہے جس کا کلچر اینٹی پالیٹکس ہے، جیسے شہری مڈل کلاس اور دیہات کے چوہدریوں کا ماسٹر بیانیہ ہمیشہ سیاستدان مخالف اور پرو اسٹیبلشمنٹ رہا ہے اور ہر آمر کو ان کی حمایت حاصل رہی ہے۔
یہ اینٹی پالیٹکس مڈل کلاس اب جمہوری دھارے کے خلاف عمران خان کے اتھارٹیرین کنزرویٹو پاپولزم کی حامی ہے، اوپر سے عمران خان کا شخصی کلٹ ہے جس کے مردوزن پروانوں کی کمی نہیں جو خان کی حکمرانی (khanate of Imran Khan) چاہتے ہیں خواہ کیسی ہی لیکس کپتان کے اخلاقی غبارے سے کتنی ہی ہوا نکالتی رہیں۔
آج جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو قومی اسمبلی کی 8 نشستوں پہ ضمنی انتخابات ہورہے ہیں اور خان کی سپر ایگو اتنی بڑی ہے کہ وہ 7 نشستوں پہ اس کے باوجود اس قومی اسمبلی کے لیے خود الیکشن لڑ رہے ہیں جس پہ لعنت بھیج کر وہ اپنے تئیں مستعفی ہوچکے ہیں اور نہ ان کا ان حلقوں کے رائے دہندگان کی نمائندگی کا کوئی ارادہ ہے۔ حق رائے دہی کو ،رائے دہندگان کی نمائندگی کو تلپٹ کرنے کا سیاسی ڈرامہ اس لیے کھیلا جارہاہے کہ اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھائی جائے اور درجن بھر جماعتوں کو دیوار سے لگادیا جائے۔ لیکن خان صاحب نے جتنے زعم سے یہ چیلنج دیا ہے وہ ان کی مقبولیت کی لہر کو بٹھا بھی سکتا ہے اور مزید اٹھا بھی سکتا ہے۔
عمران خان کا یہ دوسرا بڑا سیاسی جوا ہے۔ پنجاب میں 20 سیاسی لوٹوں کے خلاف تو انہیں بڑی اخلاقی برتری حاصل تھی، لیکن اب اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستوں پر لڑا جانے والا انتخاب تحریک انصاف اور خود عمران خان کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ اگر 7 سیٹوں میں سے 4 بھی ہار گئے تو ان کا اینٹی کلائمکس شروع ہوسکتا ہے اور وہ اگرسات کی سات سیٹیں جیت گئے تو پھر انہیں اسلام آباد جانے سے کون روک سکتا ہے؟ پھر جارحانہ سیاست کا اپنا تحرک یا مومینٹم(Momentum) ہوتا ہے اور حالات تاریخی کرداروں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
عمران خان کی سیاست کا انداز فقط بیانیے کی حد تک جارحانہ نہیں، سماجی خلفشار اور خانہ جنگی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ آج سیاستدانوں میں ایک نئے جمہوری عمرانی میثاق کی ضرورت ہے۔ جب مقتدرہ سے شکایتیں ایک سی ہوگئی ہیں تو آئینی و پارلیمانی حکمرانی کے لیے کسی ایک ایجنڈے پہ اجماع ِسیاست کیوں نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے لیے دو رَس نگاہ اور اصولی و نظریاتی و جمہوری ضمیر چاہیے۔ رواداری چاہیے، برداشت چاہیے اور کثرت میں برکت درکار ہے۔ لیکن یہاں تو گالی گلوچ کا گھٹیا بازار گرم ہے۔ کوئی دلیل ہے، نہ فکر، بس ایک لفنگی ثقافت اور گندی سیاست کا واویلا ہے۔ اس میں کوئی کیا مثبت کردار ادا کرے۔
عوام کی فکر ہے، نہ معیشت کی اور نہ سیلاب میں ڈوبے کروڑوں لوگوں کی بحالی کا خیال۔ بس اقتدار کی اندھی سیاست اور اس کا گندا کھیل اورتاک میں بیٹھی مقتدرہ کا نیا پتلی تماشہ جس کی پتلی بننے کو سب تیار تو پھر اپنے بدترین بحران کے باوجود چالو ہائبرڈ نظام اپنی شکلیں بدل بدل کر چلتا رہے گا تاآنکہ پوری عمارت زمین بوس ہوجائے۔ وقت کایا پلٹنے کا ہے، ایک دوسرے کو سیاست سے باہر کرنے کا نہیں بلکہ جمہور کی حکمرانی کو یقینی بنانے کیلئے سیاسی اتفاق رائے کا ہے۔ لیکن کوئی عمران خان کو سمجھائے تو کیا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔