Time 22 مارچ ، 2023
بلاگ

ایک ’گرفتاری‘ سب پہ بھاری

تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا۔ محمد خان جونیجو پاکستان کی سیاست کا بڑا منفرد کردار ہے جس نے سیاست میں رواداری کی مثالیں قائم کیں اور بہت جلد جنرل ضیا الحق کو یہ احساس ہوگیا کہ انہوں نے ’غلط شخص‘ کا انتخاب کیا ہےکیونکہ وہ تو ’جمہوری‘ نکلا اور وزیراعظم بنتے ہی شہری آزادیوں، میڈیا کی آزادی اور کفایت شعاری کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں جو پارلیمنٹ سے کی اس میں وہ تاریخی جملہ کہا جو دراصل کسی بھی جمہوری نظام کا نچوڑ ہے۔

 ’’جمہوریت اور مارشل لا ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘ یہ اساس ہے کسی بھی سیاسی نظام کی۔ 18مارچ 1993 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے ،ہر سال ان کی برسی خاموشی سے گزر جاتی ہے۔

اس وقت سیکرٹری اطلاعات مشہور زمانہ جنرل مجیب الرحمٰن مرحوم ہوتے تھے، ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ جونیجو ایک کمزور وزیراعظم ہیں لہٰذا انہوں نے پی ٹی وی سے اس جملے کو ’سنسر‘ کروا دیا۔ شام کو جونیجو صاحب کو ان کے کسی ساتھی نے یہ اطلاع دی کہ آپ کی تقریر کی اصل بات سنسر ہوگئی۔ انہوں نے شام کو انہیں بلایا اور وضاحت طلب کی تو فرمایا ’’جنرل صاحب ناراض ہو جاتے تو میں نے مناسب سمجھا یہ حصہ نہ جائے تو بہتر ہے۔‘‘ دوسرے روز ان کا ٹرانسفر کردیا گیا۔

جونیجو 1985کے غیر جماعتی انتخابات کی پیداوار تھے جس نظام نے بہرحال ہمارے معاشرے کو برادری اور کاروباری سیاست میں تقسیم اور تبدیل کیا بلکہ انہوں نے ایسے اقدامات بھی کئے جو آنے والے مقبول اور مضبوط وزرائے اعظم بھی نہ کر سکے۔ موجودہ رہنما سادگی اور کفایت شعاری کی باتیں کرتے ہیں مگر انہوں نے وزیروں سے لے کر بیورو کریٹ یہاں تک کہ ون اسٹار سے لے کر تھری اسٹارجنرل تک سب کو چھوٹی گاڑیاں استعمال کرنے کا آرڈر کیا۔ پھر وہ اعلان کیا جس کی شاید آج ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے اور وہ ہے سیاسی رواداری۔ جونیجو نے تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں جن پر غیر اعلانیہ پابندی تھی اسے ختم کیا جس نے 1986میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کی۔ 

انہوں نے اپنے مخالفین سے جو پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے اہم ترین معاملات پر مشاورت کی۔ افغانستان کا معاملہ اس وقت بہت پیچیدہ تھا۔ طاقتور اسٹیبلشمنٹ جنرل ضیا کی قیادت میں جنیوا اکارڈ کی مخالف تھی۔ جونیجو نے وہاں جانے سے پہلے تمام سیاسی اکابرین کو وزیراعظم ہاؤس میں دعوت دی اور ان کی حمایت سے وہاں گئے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ طاقتور حلقے اس کے مخالف ہیں۔ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک بارراقم کو بتایا کہ یہ فیصلہ جونیجو کی رخصتی کا باعث بنا۔اس خاموش طبیعت اور سادہ لوح انسان نے اوجڑی کیمپ کے دھماکے جس میں کئی سو لوگ مارے گئے، کی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی بات کی۔

آخر 28مئی 1988 کو جنرل ضیاء نے بحیثیت صدر ایک کالے قانون 58-2(B) کے تحت ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس وقت اگر ان کی جماعت مسلم لیگ اور دیگر سیاسی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی ہوتیں تو سیاست سے یہ کالا قانون بہت پہلے ختم ہو جاتا کیونکہ بعد میں اس کے تحت دوبار محترمہ کی اور ایک بار میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی۔ بدقسمتی سے اقتدار کی جنگ میں ہم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ غلط فیصلوں کا آگے چل کر آپ خود بھی شکار ہوتے ہیں۔

اس وقت ہم سیاست کے اس نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پورا نظام ضد، انا اور بغض کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے۔ 2006 میں بےنظیر اور نواز شریف نے تاریخی ’میثاق جمہوریت‘ کرتے وقت یہ تسلیم کیا کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوئے اور طے کیا کہ آگے بڑھنے کا راستہ سیاست دانوں کو طے کرنا ہے طاقتور حلقوں کونہیں۔ مگر ابھی اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ محترمہ نے جنرل مشرف کے ساتھ الیکشن کروانے کی خاطر این آر او کرلیا اور وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب مشرف سیاسی طور پرکمزور ہوچکے تھے۔ بعد میں وہ شہید ہوگئیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے اپنے والد کی طرح اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول نہیں تھیں نہ ہی انتہا پسندوں کو جو عورت کی حکمرانی کے خلاف ہیں۔

2008 میں ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے پہلی بار مشترکہ حکومت بنائی، جنرل مشرف کو ایک مشروط اور غیر اعلانیہ معاہدے کے تحت استعفیٰ دینا پڑا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ بعد میں دونوں برسرِاقتدار جماعتوں میں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر اختلاف ہوا اور مسلم لیگ حکومت سے باہر آگئی اور لانگ مارچ کا اعلان کیا جو سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی گارنٹی پر ختم ہوا اور چیف جسٹس بحال ہوگئے۔ پی پی پی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے اور 2013میں پہلی بار پرامن انتقال اقتدار ہوا۔ اسی دوران پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی جماعت اور عمران خان بڑے لیڈر کے طور پر 2011میں ابھرے۔ ان کا سپورٹ بیس پاکستان کے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی طبقہ بھی تھا جو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) سے مایوس تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پی پی پی کے پنجاب میں ناراض کارکنوں نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔

اپریل میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ آ سکتی تھی اور نہ ہی منظور ہو سکتی تھی اگر عمران اور جنرل قمر جاوید باجوہ میں اختلافات نہ ہوتے۔ یہی ہماری سیاسی غلطی ہے کہ اپنے مفاد کی خاطر ہم نظام کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ ان 11ماہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں سیاسی انتقام کی ’بو‘ آ رہی ہے۔ وہی غلطیاں دہرائی جا رہی ہیں جو ماضی میں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ اگرغلط ہوا ہے تو کیا اس کا بدلہ لینے سے آپ کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ہونا تو کچھ یوں چاہئے تھا کہ

تیری انا کا ہی سوال ہے تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لئے

محمد خان جونیجو ایک تنہا شخص وہ مثال قائم کر گیا جو یہ تینوں جماعتیں اور مقبول لیڈر قائم نہ کر سکے وہ تھی سیاسی رواداری۔ نکالا گیا تو یہ کہہ کر گھر چلا گیا کہ ’’شاید مجھ سے بہتر کوئی مل گیا ہوگا۔‘‘ عمران خان ایک سیاسی حقیقت ہے اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاسی طریقہ اختیار کریں، ریاستی حربوں سے تو یہ چراغ گل نہیں ہوگا۔ وہ غلطی نہ کریں جس نے بھٹو کو امر کر دیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔