04 اپریل ، 2023
وہ زندہ بھٹو سے ہی نہیں اس کی موت سے بھی خوف زدہ تھے۔ اپنے زمانے کی پی ٹی وی کی نامور نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر نے اپنی خود نوشت ’میرا زمانہ میری کہانی‘ میں اس دن (4؍اپریل 1979) کو پی ٹی وی نیوز روم کا احوال اس انداز میں بیان کیا کہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فوجی حکمران کس قدر مشکل میں تھے ’پھانسی’ کے بعد بھی۔’’میں ایک لمبے سفر کے بعد گھر پہنچ کر ٹی وی پر جانے کی تیاری کررہی تھی کہ اتنے میں پی ٹی وی نیوز روم سے ہمارے نیوز پروڈیوسر کا فون آگیا۔
خاصی گھبراہٹ میں تھے۔ خبر تو سن لی ہوگی آپ نے۔ میرے ہاں کہنے پر بولے۔ بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ؟ میرے اطمینان دلانے پر ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ فون کی گھنٹی پھر بجی۔ اس مرتبہ خود نیوز کنٹرولر حبیب اللہ فاروقی لائن پر تھے۔ بولے، ’’دیکھیں بی بی بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ لیں گی آپ کہیں رو تو نہیں پڑیں گی‘‘۔
ماہ پارہ آگے چل کر لکھتی ہیں ’’شاید بار بار پوچھے جانے کے دبائو میں ذہنی طور پر کچھ زیادہ ہی تیار تھی۔ نو بجے کےخبر نامے میں میرے ساتھ خالد حمید تھے۔ اس کو بھی احتیاط کی تنبیہ کی گئی تھی۔ خبر نامہ شروع ہوا۔ سرخیاں میں نے پڑھیں۔ خبر کی تفصیل خالد حمید نے پڑھنی شروع کی۔ لیکن چند سطریں پڑھنے کے بعد خالد کی آواز میں ہلکی سی لرزش ہوئی جیسے گلے میں پھندہ سا پڑ جائے۔ بمشکل جملہ مکمل کیا۔ اگلا جملہ شروع ہونے میں وقفہ اتنا تھاکہ محسوس کیا گیا۔ بہرحال جیسے ہی خبرنامہ ختم ہوا تو سب کی جان میں جان آئی۔
میک اپ روم میں خالد کہنے لگے میں تو بہ مشکل یہ خبر پڑھ پایا۔ اس خبر کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کی نماز جنازہ پڑھائے جانے کی چند سیکنڈ کی فوٹیج دکھائی گئی۔ جس بند تابوت میں چند لمحوں کے لئے ان کے چہرے کی جھلک دکھائی گئی تھی۔ اس کا مقصد لوگوں کو ان کے چہرے کا دیدار کرانا نہیں، یہ بتانا مقصود تھاکہ دفن ہونے والی لاش ذوالفقار علی بھٹو کی ہی تھی۔ ملک کے سابق وزیراعظم کی میت ایک بان کی چارپائی پر چٹائی کے اوپر رکھی ہوئی تھی‘‘۔اس آخری ملاقات کا حال اس وقت راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سعید مہدی صاحب نے راقم کو بتایا تھاجو بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے کروائی گئی۔ ’’مجھے فون آیا کہ ملاقات کروانی ہے جس کا کوئی دورانیہ نہیں ہے۔ میں وہیں کھٹک گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے فیصلہ ہوگیا ہے کیونکہ ساتھ میں مجھے یہ بھی ہدایت تھی کہ میں دفتر میں ہی رہوں گھر نہ جائوں۔ میں نے گھر والوں کو بتانے کے لئے کہ میں آج رات گھر نہیں آرہا فون کا ریسور اٹھایا تو وہ ڈیڈ تھا۔ پتا چلادفتر کی تمام لائنیں بند ہیں۔
بہرحال دونوں خواتین کی ملاقات کا اہتمام کروایا گیا۔ ان کو بھی اندازہ ہوگیا تھا۔ اس پوری ملاقات میں بیگم صاحبہ تو روتی رہیں البتہ بھٹو اطمینان سے بیٹی کو کچھ لکھواتے رہے‘‘۔ذہن کا بوجھ بعض اوقات انسان کے ضمیر کو جگا ہی دیتا ہے۔ اس مقدمہ کی جسے نہ آج عدلیہ قبول کرنے کو تیار ہے نہ تاریخ ماننے کو، گواہی اندر سے آئی جس کا اعتراف صرف ٹی وی پر ہی نہیں تفصیل سے اپنی کتاب 'Memoirs and Reflections' میں اس سات رکنی سپریم کورٹ کے جج اور بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے جسٹس نسیم حسن شاہ نے کیا۔ اندازہ کریں کہ اس اعلیٰ ترین منصب پر کیسے کیسے لوگ آئے ہیں جنہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ دبائو میں کیا۔ یہ دبائو کہیں اور سے نہیں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین جنہوں نے یہ قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ میں جانے کے بجائے خود سنا اور پھانسی کی سزا دی اور ہماری عدالتی تاریخ کے انتہائی متنازع کردار شریف الدین پیرزادہ کی طرف سے آیا۔
’’بھٹو نے سپریم کورٹ میں اپیل فائل کی تو میں اس وقت ایڈہاک جج تھا اور اس وجہ سے اس کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا کہ وہ اپیل میرے سامنے آتی۔ یہ بات اپریل 1978کے شروع کی ہے میں ایک فنکشن میں جانے کی تیاری کررہا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مشتاق اور اٹارنی جنرل شریف الدین پیرزادہ تشریف لائے ہیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اپیلٹ بینچ کا حصہ بنیں۔ میں نے کہا میں ایڈہاک جج ہوں اور اس لئے یہ درست نہیں ہے کہ میں اس کا حصہ بنوں۔ مگر انہوں نے پھر بھی مجھ پر زور دیا‘‘۔ بہرحال انہوں نے آگے جاکر لکھا کہ بعد میں چیف جسٹس نے فل کورٹ تشکیل دیدیا جو نو ججز پر مشتمل تھا اور وہ نویں جج کے طور پر بینچ کا حصہ بنے۔
جب اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ نو رکنی تھاسماعت 30؍جولائی 1978 ءتک جاری رہی جب اس دن ایک جج جسٹس قیصر خان جن کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا اور جو بقول جسٹس نسیم حسن شاہ کے بھٹو کی اپیل منظور کرنے کے حق میں تھے 65سال مکمل ہونے پر ریٹائر ہوگئے۔ اب سماعت آٹھ رکنی بینچ نے جاری رکھی کہ اچانک جسٹس وحید الدین خان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ سماعت سے الگ ہوگئے۔ ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ اب بینچ سات پر مشتمل تھا جس میں سب سے جونیئر ایڈووکیٹ جج نسیم حسن شاہ تھے۔
فیصلہ آیا تو چار۔ تین سے بھٹو کی اپیل مسترد کردی گئی جنہوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا ان میں چیف جسٹس انوارالحق، جسٹس محمد اکرم، جسٹس کریم الٰہی اور جسٹس نسیم حسن شاہ کا تعلق پنجاب سے اور جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس حلیم اور جسٹس صفدر شاہ کا تعلق سندھ اور کے پی سے تھا۔ اگر خود جسٹس نسیم نے جو لکھا اس پر جائیں تو یہ فیصلہ 5اور 4کا بھٹو کے حق میں تھا کیونکہ انہوں نے خود لکھا ہے کہ جسٹس قیصر اور جسٹس وحید الدین بھی اپیل منظور کرنے کے حق میں تھے۔
چلیں فیصلہ ہوگیا اور وہ پھانسی بھی چڑھ گیا مگر تاریخ نے یہ ثابت کرکے یہ ایک ’عدالتی قتل‘ تھا خود اعلیٰ عدلیہ کو اس مقدمے میں مجرم ٹھہرایا۔ سیاسی طور پر آج بھٹو کا بدترین سیاسی مخالف بھی اس کی بہادری اور جرأت کا معترف ہے۔ شاید اسی دن کے لئے اس نے جب اپنے اہل خانہ کو منع کیا کہ میرے لئے رحم کی اپیل نہ کرنا، کسی غیر ملک جانے یا کسی طرح کا این آر او لینے سے انکار کیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی جو اس نے اپنی اہلیہ اور بیٹی سے کہی، ’’میرے لئے رحم کی اپیل نہ کرنا یہ مجھے نہیں چھوڑیں گے۔ میں ضیاء کے ہاتھوں معافی لے کر تاریخ کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا بلکہ پھانسی چڑھ کر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں‘‘۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔