06 اپریل ، 2023
کاش چیف جسٹس عمر عطا بندیال فل کورٹ بنا دیتے۔ کاش چیف جسٹس اُسی تین رُکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے پنجاب میں الیکشن کروانے جیسا اہم سیاسی فیصلہ نہ کرتے جس کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہ بنچ کیا فیصلہ کرسکتا ہے۔
کاش چیف جسٹس تمام سیاسی جماعتوں کا مؤقف سن کر اپنا فیصلہ سناتے اور بنچ پر اعتراض کرنے والوں کی بات سن لیتے۔ کاش چیف جسٹس اپنے ساتھی ججز کے اعتراضات اور اُن کے فیصلوں کو بھی اہمیت دیتے۔ کاش چیف جسٹس یہ فیصلہ نہ کرتے، ایک ایسا فیصلہ نہ کرتے جسے ناصرف تاریخ کے متنازعہ فیصلوں میں شامل کیا جائے گا بلکہ اس کے سبب موجودہ سیاسی انتشار اور تقسیم مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔
مجھے ذاتی طور پر بنچ پر بھی اعتراض تھا اور فیصلہ بھی میری نظر میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود جب فیصلہ آ گیا تو اس کو حکومت کیسے مسترد کر سکتی ہے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کے پاس اگر کوئی قانونی اور آئینی راستہ موجودہ ہے تو وہ ضرور اسے اپنے حق میں استعمال کرے لیکن یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی نہیں مانتے اور اس پر عمل بھی نہیں کریں گے تو یہ بھی انتشار کی ایک نئی شکل ہوگی۔
نہ کابینہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے نہ ہی حکمراں اتحاد کے رہنمائوں کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ یہ کہیں کہ اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جائے گا چاہے اس کے جو مرضی نتائج ہوں۔ حکومت کے پاس اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست کرنے کا حق موجود ہے۔
یہ نظرثانی کی اپیل ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ میں پیش کی جا سکتی ہے اور اس کے لئے حکومت حال ہی میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس ہونے والے چیف جسٹس کے اختیارات کے متعلق بل کے قانون بننے کا انتظار بھی کر سکتی ہے۔
کہا جارہا ہے کہ شاید صدر پاکستان اس بل پر دستخط نہیں کریں گے جس کے باعث حکومت کو اس بل کو قانون کی شکل دینے میں پندرہ دن بھی لگ سکتے ہیں۔ جب یہ بل قانون بن جائے گا تو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے اور نئے بننے والے قانون کے مطابق چیف جسٹس اور دو سینئیر ترین ججوں کی کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ اس اپیل کو سننے کے لئے کن کن ججز پر مشتمل بنچ بنایا جائے۔
تحریک انصاف کے سینیٹر اور سپریم کورٹ کے وکیل علی ظفر نے اس قانون کی تجویز پر سینیٹ میں بحث کے دوران حکومت کو یہ وارننگ دی تھی کہ عدلیہ اس قانون کو بننے کے 10/20 دن کے اندر ہی کالعدم قرار دے دے گی۔ اگر ایسا ہوا تو معاملہ مزید گمبھیر ہو جائے گا اور سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے ہوں گے۔
حکومت کی طرف سے فیصلہ دینے والے تین رُکنی بنچ میں شامل ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ میری دانست میں فیصلوں کی بنیاد پر ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
صرف اُسی صورت میں ایسا ریفرنس قابلِ سماعت ہو سکتا ہے جب شکایت کنندہ کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہو کہ اس فیصلے کے پیچھے کوئی سازش تھی یا کوئی غیر قانونی اقدام اس کی وجہ تھا۔ صرف یہ کہنا کہ یہ تین ججز تو عمران خان کے حق میں اور ن لیگ اور پی ڈی ایم کے خلاف فیصلے دیتے ہیں، کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
چیف جسٹس اگر انصاف ہوتا ہوا نظر آنے کے اصول کی پاسداری کے لئے فل کورٹ بنا دیتے تو ہمیں اس موجودہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس میں اس بات کو یقینی طور پر کہا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ پنجاب میں الیکشن 14 مئی کو ہی ہوں گے، اس طرح حکومت اور پی ڈی ایم کو چاہئے کہ جذباتی انداز میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرنے کی بجائے قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرے۔
حکومت اور حکمراں جماعتیں ہی اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانیں گی تو پھر عام لوگ عدالتوں کے فیصلوں کو کیوں تسلیم کریں گے۔ یہاں اب بھی سیاسی حل کی بات کی جا سکتی ہے ۔ عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ وہ اکتوبر میں الیکشن کے لئے انتظار کر سکتے ہیں اگر حکومت کے پاس کوئی ٹھوس تجویز ہو۔ کتنا اچھا ہو کہ حکمراں جماعتیں اور تحریک انصاف پورے پاکستان میں اکتوبر میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کے نکتے پر اتفاق کرلیں تو اس سے ہم بہت سی خرابیوں سے بچ جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔