13 اپریل ، 2023
شہباز شریف حکومت کا ایک سال مکمل ہو گیا ،جسے بربادی کا ایک اور سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بربادی بھی وہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان، قومی معیشت اور عوام ہیں۔
اس خرابی کی وجوہات تو بہت سی ہیں لیکن جس چیز نے ہمیں حد سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ ہے بدترین سیاسی تقسیم ۔ اگر ماضی میں پاکستان کو مذہبی فرقہ بندی اور منافرت نے بہت نقصان پہنچایا تو اب ہمیں ایک ایسی سیاسی فرقہ بندی کا سامنا ہے جس نے معاشرے میں موجودہ سیاسی اختلاف رائے کو اُس دشمنی اور نفرت میں بدل دیا جو معاشرے اور ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس سیاسی فرقہ بندی کو پروان چڑھانے میں یقیناً عمران خان کا کردار بنیادی رہا لیکن پی ڈی ایم اور ن لیگ کی موجودہ حکومت نے بھی اپنی ایک سالہ حکمرانی کے دوران سیاسی فرقہ بندی کو ہی ہوا دی اور عمران خان کی اپنے مخالفین سے کسی صورت ہاتھ نہ ملانے اور ساتھ نہ بیٹھنے کی منفی روش کو ہی اپنایا۔
ہماری سیاسی تاریخ خوشگوارتو کبھی نہیں رہی لیکن سیاست کو جس طرح اب نفرت اور دشمنی میں بدل دیا گیاہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ماضی میں بدترین سیاسی مخالف مشکل حالات میں ایک دوسرے سے ملتے رہے، بات چیت کا دروازہ کھلا رکھا ۔
پہلے عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران ایک مرتبہ بھی اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنا اور اُن سے ہاتھ ملانا مناسب نہ سمجھا بلکہ پاکستان اور ریاست کے اہم مسائل پر بھی اگر کبھی حکومت اور اپوزیشن کا مل کر بیٹھنا لازم ہوا تو عمران خان ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود ایسے اجلاسوں سے غائب رہے۔ وہ بار بار اپنے مخالفین کی طرف اشارہ کرکے کہتے رہے کہ کچھ بھی ہوجائے وہ چوروں ڈاکووں کے ساتھ کبھی ہاتھ نہیں ملائیں گے، اُن کے ساتھ کبھی بات چیت نہیں کریں گے۔
اُن کا یہ رویہ اُن کی حکومت کے خاتمےکے بعد بھی جاری رہا جس کی وجہ سے سیاسی مخالفت نفرت اور دشمنی میں بدل گئی۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں ماضی میں عمران خان کے اس رویہ پر تنقید کرتی رہیں اور یہ کہتی رہیں کہ سیاست میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا لیکن اپنی موجودہ حکومت کے دوران حکمراں اتحاد نے بھی عمران خان کے ساتھ بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ سیاست میں جس نفرت اور دشمنی کی میں بات کر رہا ہوں اُسے مزید ہوا دی۔
عمران خان کو ایک ایسا فتنہ قرار دیا جس کے خاتمہ کئے بغیر پاکستان کی سیاست کو نفرت اور دشمنی سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔ پہلے عمران خان نے اپنی حکومت کے دوران اسی رویہ کی وجہ سے ملک کو سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار کئےرکھا جس کی وجہ سے معیشت بھی تنزلی کا شکار رہی۔ موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ ایک سال کے دوران سیاسی استحکام کی بجائے عمران خان اور اُن کی جماعت کو نشانےپر رکھا، بات چیت کی کوئی ایک بھی سنجیدہ کوشش نہ کی جس کی وجہ سے سیاسی تقسیم اور سیاسی عدم استحکام مزید بڑھتا گیا اور اس کے نتیجہ میں ملکی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی اور عوام کو ایسی مہنگائی کا سامنا ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
سب مانتے ہیں کہ یہ سیاسی تقسیم ، نفرت اور دشمنی پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے لیکن جو سیاستدانوں کو کرنا چاہئے وہ کرنے کو تیار نہیں۔ اپنی ضد اور انا کی سیاست کے ہاتھوں ناکامیوں کے بعد اگر عمران خان نے ماضی قریب میں یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ہر ایک سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں تو حکمراں اتحاد اب ’’میں نہ مانوں‘‘ کی ضد کرتا دکھائی دیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ عمران خان سے بات چیت نہیں ہو سکتی۔
سیاستدانوں کے اسی رویہ کی وجہ سے پاکستان کو آج بدترین سیاسی بحران اور بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔اس سیاسی فرقہ بندی کے اثرات ہمیں ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں بھی نظر آنے لگے اور پاکستان کی عدالت عظمیٰ کو بھی ایک ایسی تقسیم کا سامنا ہے جس نے ایک سنگین عدالتی بحران کو جنم دیا۔ پاکستان کے لئے یہ سب بڑی تشویش کا سبب ہے۔ پاکستان اور اس کی معیشت کو تباہ حالی کا سامنا ہے لیکن کوئی اس کو بچانےکو تیار نہیں۔ ایسے میں گزشتہ چند دنوں میں حکمراں اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولنے کا مطالبہ خوش آئند ہے۔
آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ بات چیت کے لئے اپوزیشن یعنی عمران خان کو وزیر اعظم سے رابطہ کرنا چاہئے۔ عمران خان اگر ایسا کرتے ہیں تو ملک اور قوم کے لئے یہ بہت اچھا ہوگا لیکن میری رائے میں وزیر اعظم شہباز شریف کو عمران خان سے خود بات کرنی چاہئے اور ڈائیلاگ کی دعوت دینی چاہئے۔ اس ڈائیلاگ میں ہوسکے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی بٹھایا جائے کیوں کہ پاکستان کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کیلئے بات چیت اور قوی ڈائیلاگ ہی واحد حل ہے۔ورنہ آگے خرابی ہی خرابی ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔