19 اپریل ، 2023
(گزشتہ سے پیوستہ)
سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف سے 126-دن کے دھرنے کے باوجود استعفیٰ نہ لے سکے اور معاملہ بہرحال بات چیت سے ہی حل ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں سمیت قومی اسمبلی میں واپس گئے۔
میاں صاحب اس بحران سے نہ نکل پاتے اگر اس وقت پی پی پی پارلیمنٹ کے بجائے عمران کے دھرنے کی حمایت کردیتی۔ میاں صاحب کی اس دور میں عمران خان سے ایک ملاقات بنی گالہ میں بھی ہوئی تھی جب وہ ان کو قائل کرنے گئے تھے کہ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے تو مخالفت بھی نہ کریں۔ عمران کا موقف تھا کہ آپریشن مسئلے کا حل نہیں۔
بہرحال 16؍دسمبر 2014ء کو پشاور آرمی پبلک اسکول میں 150بچوں اور ٹیچرز کا قتل عام ہوا تو خان صاحب نے بھی آپریشن کی حمایت کردی جس کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں ’نیشنل ایکشن پلان‘ مرتب کیا گیا اور کراچی میں بلاامتیاز آپریشن کی منظوری دی گئی۔ کہتے ہیں ایک موقع پر جنرل صاحب نے پوچھا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ بیچ میں آپریشن روک دیا جائے۔
کراچی میں میاں صاحب کے تینوں ادوار میں یہ تیسرا آپریشن تھا مگر اس بار نشانہ کالعدم تنظیموں کے علاوہ ایک بار پھر ایم کیو ایم اور 90 عزیزآباد کے ساتھ لیاری گینگ وار بھی بنا۔ بات یہیں تک رہتی تو غنیمت تھی کیونکہ 2008ء میں زرداری صاحب نے سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ذریعے لیاری گینگ اور ایم کیو ایم کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا اور مرزا نے عذیر بلوچ پر ہاتھ رکھ دیا، بات سول وار تک آ گئی تھی۔ مگر اس بار کچھ مختلف ہوا اور آپریشن کے ساتھ اچانک منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد اور ہتھیاروں کی سپلائی کی تحقیقات بھی ہوئیں۔
بات دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تک رہتی تو شاید معاملات اتنے نہ بگڑتے مگر اس وقت کے ڈی جی ISI جنرل نوید مختار کی ایک تقریب میں ’’سیاسی تقریر‘ ‘نے اور بعد میں رینجرز کی ایک پریس ریلیز میں بلاول ہائوس کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی خبر نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ پھر ایک اجلاس میں ،جس میں وزیراعظم اور زرداری صاحب بھی شریک تھے، ڈی جی رینجرز جنرل بلال نے تو سندھ حکومت کے خلاف تقریباً چارج شیٹ پیش کردی۔
کہتے ہیں زرداری صاحب یہ کہہ کر اجلاس سے اٹھے کہ میاں صاحب جو آج ہمارے ساتھ ہورہا ہے وہ کل آپ کے ساتھ ہوگا۔ 2015ء میں اچانک زرداری صاحب کے قریب ترین ساتھی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ میاں صاحب نے خود بھی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے اس حوالے سے ناراضی کا اظہار کیا اور زرداری صاحب کو بھی فون کیا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے انتظار کیا اور جب عاصم کو رہا نہ کیا گیا تو ان کا بیان کہ ’آج نوازشریف نے میری پیٹھ پر چھرا گھونپا ہے‘ کھلی جنگ کا اعلان تھا، جس کی رہی سہی کسر چوہدری نثار نے یہ کہہ کر پوری کردی کہ ’’عاصم کا حلفیہ بیان ان کے پاس ہے ویڈیو کی شکل میں‘‘۔
2016ء میں پانامہ لیگ نے میاں صاحب کیلئے نئی مشکلات کھڑی کردیں۔ ان کے پاس تین آپشن تھے۔ اخلاقی طور پر استعفیٰ دے دیتے، پارلیمنٹ میں کیس لے جاتے یا پھر سپریم کورٹ اگر بلاتی تو وہ اپنا دفاع کرتے۔ انہوں نے آخری آپشن استعمال کیا اور پھنس گئے۔ جس وقت کورٹ نے JIT بنائی اور پانامہ کو چھوڑ کر صرف میاں صاحب کو چنا تو فیصلہ واضح تھا مگر سوال یہ ہے کہ میاں صاحب نے بائیکاٹ کیوں نہ کیا۔ اس سب کے باوجود عمران کو 2018ء میں الیکشن میں واضح کامیابی نہ ملی۔
عمران خان جنرل باجوہ کے طفیل وزیراعظم بن گئے۔ متحدہ، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان عوامی پارٹی اور جنوبی پنجاب محاذ۔ یہ سب خان صاحب کیلئے باجوہ اور فیض کے تحفہ تھے۔ اب اس کا کیا کیا جائے اگر عثمان بزدار پنجاب اور محمودخان کے پی کے وزیراعلیٰ بن جائیں۔اس سب کے باوجود انہیں فوج کی مکمل حمایت تھی عدلیہ بھی پانامہ کے بعد ان کیلئے خطرہ نہیں تھی، اسٹیبلشمنٹ نے سینیٹ کے انتخابات میں بھی غیر معمولی انداز میں انکی حمایت کی ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں پی ڈی ایم کے امیدوار حاصل بزنجو کی حمایت میں 64 سینیٹر کھڑے ہوں اور پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے ساتھ 34 ہوں مگر سیکریٹ بیلٹ میں حاصل بزنجو ہار جائے۔
عمران کے پاس موقع تھا اگر وہ پنجاب میں فوری بلدیاتی الیکشن کرادیتا مگر اس وقت اسے مسلم لیگ (ن) سے ویسا ہی خطرہ تھا جیسا آج ن لیگ کو پی ٹی آئی اور عمران سے ہے۔ خان صاحب کی ساڑھے تین سال میں ڈھائی سال چوہدریوں سے دوری رہی اور وہ بھی اس حد تک کہ انہیں مونس الٰہی کی شکل تک پسند نہیں تھی مگر بنی تو ایسے کہ آج چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کے مرکزی صدر ہیں۔ اسی دوران عمران کے پاس بنیادی اصلاحات کا موقع تھا مگر جس انداز میں نیب کو چیئرمین جاوید اقبال کی ویڈیو لیک کروانے کے بعد استعمال کیا گیا اس سے احتساب نے انتقام کی شکل اختیار کرلی جس کا واضح ثبوت شہزاد اکبر کا رول ہے جو آج منظر سے غائب ہیں ورنہ خان صاحب شفاف احتساب کے ذریعے بھی یہ کام کرسکتے تھے۔ دوسری طرف میاں صاحب اور زرداری صاحب میں تنائو برقرار رہا جس کی مثال مسلم لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری کے گھر پی ڈی ایم کا وہ اجلاس ہے جس کے بعد پی پی پی اور پی ڈی ایم الگ ہوگئیں۔
ابھی عمران کی حکومت میں دو سال باقی تھے کہ انہوں نے ایک غیر ضروری تنائو جنرل باجوہ سے جنرل فیض حمید کی ISI سے ٹرانسفر پر مول لے لیا۔ بعد میں یہ اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ باجوہ کو جس طرح توسیع ملی اور جنرل فیض کے پورے رول پر سنجیدہ سوالات ہیں۔
کہتے ہیں جنرل باجوہ نے بعد میں پی ڈی ایم کو استعمال کیا اور جنرل فیض حمید نے عمران کو اور یوں بات عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے اعلیٰ عدلیہ کے سوموٹو تک آگئی کبھی پی ڈی ایم کے حق میں تو کبھی عمران کے۔ ان 12 ماہ میں صرف اور صرف عمران کو فائدہ ہوا اور کل تک جو سیٹیں اس کو تحفہ میں دی گئی تھیں وہ آج باآسانی جیتنے کی پوزیشن میں ہیں اور صورتحال ایسی ہے کہ الیکشن کی گولی نہ اُگلی جا رہی ہے نہ نگلی جا رہی ہے۔ کیا عدلیہ، کیا پارلیمنٹ اور کیا نیوٹرل سب کو غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے ایسے میں جماعت اسلامی کی بات چیت کی کوشش ایک مثبت اقدام ہے مگر ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔