27 اپریل ، 2023
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اپنے متعلق تنقید سننی چاہئے اور سن کر اپنے اور سپریم کورٹ کے معاملات کو درست بھی کرنا چاہئے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران کچھ اہم سیاسی مقدمات میں سپریم کورٹ کے اندر ججوں کی تقسیم اور چیف جسٹس کے عدالتی امور سے متعلق انتظامی اختیارات کے استعمال نے ایسے تنازعات جنم دئیے، جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
سیاسی معاملات جب عدالتوں میں آتے ہیں تو اس سے ویسے ہی تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی طرف سے اعتراضات بھی اُٹھائے جاتے ہیں لیکن اس بار جو انہونی ہوئی وہ سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں کی طرف سے چیف جسٹس اور اُن کے بنائے گئے چند ایک بینچوں کے فیصلوں کی قانونی اور آئینی حیثیت پر سوال اُٹھانا تھا۔
ان جج حضرات نے اپنے فیصلوں میں نہ صرف چیف جسٹس کے بینچ بنانے اور سوموٹو نوٹس لینے کے اختیارات پر اعتراض اُٹھایا بلکہ چند ایک بینچوں بشمول وہ بینچ جس کی سربراہی چیف جسٹس نے خود کی ،کے فیصلوں کے خلاف فیصلے دیے۔
سپریم کورٹ کے اندر کی اس تقسیم اور چیف جسٹس کے اختیارات اور اُن کے عدالتی امور سے متعلق معاملات پر سپریم کورٹ کے اندر سے ججوں کی طرف سے اعتراضات نے سیاسی مقدمات سے متعلق تنازعات کی شدت کو اتنا بڑھا دیا کہ چیف جسٹس اور اُن کے تین ساتھی ججوں کے استعفوں کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔
چیف جسٹس اور دوسرے کچھ ججز کے بارے میں یہ بات عام کہی جانی لگی کہ وہ سیاسی مقدمات میں تحریک انصاف کے حق میں فیصلے دیتے ہیں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود سیاسی مقدمات سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں کرتے۔
وزیر اعظم شہباز شریف، اُن کے وزراء اور حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف سے بھی چیف جسٹس اور اُن کے چند’’ہم خیال‘‘ ججوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے فورم سے بھی چیف جسٹس اور اُن کے ’’ہم خیال‘‘ ججوں کے خلاف تقاریر کی گئیں اور مختلف قراردادیں پاس کی گئیں۔
حکمراں اتحاد کی طرف سے جو بیانیہ بنایا گیا اُس میں بینچ فکسنگ کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چند دوسرے ججوں پر عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے سہولت کاری کا الزام شامل ہے۔
یہ الزامات کچھ عرصہ سے لگائے جا رہے تھے لیکن چیف جسٹس نے اس سب کے باوجود سیاسی مقدمات سے اپنے آپ کو علیحدہ نہ کیا بلکہ بار بار ایسے بینچ بنائے جن کو دیکھ کر پہلے ہی یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں ہوگا۔
حقیقت کچھ بھی ہو، ایسا تاثر کسی جج، کسی عدالت کے بارے میں نہیں ہونا چاہئے۔ افسوس کہ یہاں ہم جو بات کر رہے ہیں وہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت اور ملک کے سب سے بڑے جج کے بارے میں ہے۔
ایسے میں جب چیف جسٹس اور اُن کے چند ایک ہم خیال ججوں کے خاندان کے افراد کی عمران خان اور تحریک انصاف سے وابستگی کی بات کی جارہی تھی تو جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس صاحبہ کی مبینہ آڈیو لیک کا سامنے آنا ایک بڑا اسکینڈل بن گیا۔
ابھی تک چیف جسٹس یا سپریم کورٹ کی طرف سے اس مبینہ آڈیو کے متعلق نہ کوئی تردید جاری کی گئی ہے نہ کوئی وضاحت سامنے آئی ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں چیف جسٹس کی ساس صاحبہ سینئر وکیل خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ کو عمران خان کے جلسوں میں لاکھوں افراد کی شرکت کے حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اُنہوں نے ’’عمر‘‘ کو فون پر پیغام بھیجا کہ لاکھوں لوگ اُن کیلئے دعائیں کر رہے ہیں۔
ایسا ہی پیغام ایک اور جج صاحب کو بھیجا گیا۔ اسی مبینہ آڈیو میں تحریک انصاف کے مخالفین کو کوسا گیا اور اس مایوسی کا بھی اظہار کیا گیا ’’وہ کمبخت مارشل لا لگانے کو بھی تیار نہیں‘‘۔ اس سے پہلے بھی کئی متنازعہ آڈیولیکس سامنے آچکی ہیں لیکن کسی آڈیو پر نہ سوموٹو لیا گیا، نہ فارنزک ہوئی اور نہ ہی شفاف تحقیقات۔
لہٰذا اس مبینہ آڈیو کے متعلق بھی مجھے کسی قسم کی انکوائری کی کوئی امید نہیں لیکن میں چیف جسٹس صاحب سے یہ درخواست ضرور کرتا ہوں کہ وہ کم از کم اب اپنے آپ کو سیاسی مقدمات سے علیحدہ کریں اور بینچ بناتے وقت بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں کیوں کہ انصاف کا ہونا کافی نہیں انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے اور ججوں کے نام سن کر ہی یہ تاثر نہیں جانا چاہئے کہ فیصلہ کیا ہو گا؟
اب تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی بھی ایک آڈیو لیک سامنے آچکی جس میں وہ ممکنہ طور پر وزیراعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کے کیس میں فارغ کرنے کی بات کر رہے ہیں جس پر وزیر قانون کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا پرچہ وقت سے پہلے آؤٹ ہو گیا۔
تحریک انصاف پہلے سے ہی یہ کہہ رہی ہے کہ شہباز شریف جلد توہین عدالت کیس میں فارغ ہونے والے ہیں۔کیا واقعی ایسی کوئی پلاننگ ہو رہی ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔