12 جون ، 2023
سپریم کورٹ میں گزشتہ روزایک پٹیشن دائر کر دی گئی ہے، جس میں عدالتِ عظمیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے عمل کو نہ صرف روکا جائے بلکہ اسے غیر قانونی اور غیر آئینی بھی قرار دیا جائے۔
سول سوسائٹی کے چند ایک ممبران کی طرف سے دائر کی گئی اس پٹیشن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سویلین شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جاسکتے۔
اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس درخواست کو کب سنتی ہے لیکن پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے گزشتہ جمعرات کو 9 اور 10مئی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے مشتبہ افراد کے ٹرائل کے خلاف پٹیشنز سنیں اور سوال اٹھایا کہ فوجی قوانین کے تحت شہریوں کے خلاف فوجداری مقدمات کیسے شروع کئے جاسکتے ہیں؟
خبروں کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ کے جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ نے توجہ دلائی کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا کورٹ مارشل کہلاتی ہے اور اس کیلئے آئین کی تشریح درکار ہے۔
اس کیس میں اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے، سماعت ملتوی کردی گئی۔
پشاور ہائی کورٹ کی اس سماعت سے ایک دن قبل فارمیشن کمانڈرز کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں 9 مئی کی یوم سیاہ کے طور پر مذمت کرتے ہوئے اس امرکا اعادہ کیا گیا کہ شہدا کی یادگاروں، جناح ہاؤس اور فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے والوں کو یقینی طور پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تیز رفتار انصاف کے کٹہرے میں لایاجائے گا، جو آئی ایس پی آرکی پریس ریلیز کے مطابق’’آئین پاکستان سے ماخوذ‘‘ ہے۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں یہ بھی کہا گیا کہ ’’فورم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے معاندانہ قوتوں کے غلط عزائم کو نتیجہ خیز شکست دینے کی راہ میں رکاوٹیں اور دشواریاں کھڑی کرنے کی کسی بھی کوشش سے آہنی ہاتھوں نمٹاجائیگا۔‘‘
اس صورتحال کے پیش نظر فوجی کمان 9 مئی کے حملہ آوروں، منصوبہ سازوں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنیوالوں پر آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کیلئے پُرعزم نظر آتی ہے۔
دیکھنا یہ ہےکہ اس معاملے کو عدلیہ کیسے دیکھے گی؟ اس کیس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے ایڈووکیٹ شاہ فیصل، جو درخواست دہندگان کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں پیش ہوئے، کے بارے میں ایک اخبار میں رپورٹ ہوا کہ انہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے سے اہم قانونی سوالات نے جنم لیا ہے بالخصوص اس سوال نے کہ آیا آئین میں ترمیم کئے بغیر کسی شہری کا فوجی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے؟
قانونی برادری اس حوالے سے منقسم ہے کہ آیا شہریوں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چل سکتا ہے یا نہیں۔؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قانونی ہے جبکہ دیگر کہتے ہیں کہ یہ غیر قانونی ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ماضی میں کئی سویلین شہریوں کے مقدمات آرمی ایکٹ اور سول سیکرٹ ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جا چکے ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایس پی آر سے میں نے تفصیلات مانگیں جو مجھے ابھی تک نہیں ملیں۔
البتہ جب ایک سابق آرمی چیف سے اس حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان قوانین کے تحت سویلین شہریوں پر بھی مقدمے چلتے رہے ہیں اور اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام تاثر کے برعکس فوجی عدالتوں میں شفاف ٹرائل کو یقینی بنایاجاتا ہے اور سزا کی صورت میں سزایافتہ افراد کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس معاملہ میں ممکنہ طور پر فوج اور عدلیہ کے درمیان تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔
9 مئی کے واقعات کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔یہ دن جسے Black Day قرار دیا گیا ہے پاک فوج کیلئے 9/11 سے کم نہیں ،اسی لئے فوج کی طرف سے اس عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں، منصوبہ سازوں اورسہولت کاروں کو ہر حال میں سزائیں دی جائیں گی۔ یہ اس لئےبھی ضروری ہے کہ دوبارہ کوئی 9مئی رونما نہ ہو۔ اب دیکھتے ہیں کہ عدلیہ کیا فیصلہ کرتی ہے؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔