اپنی اصل، اپنی پہچان کھونے والی قوم!

سوشل میڈیا کے ذریعے پتا چلا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سینکڑوں طلباو طالبات نے ہندو مذہب کی رسم ہولی منائی۔ ویڈیو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ہندو مذہب کی یہ رسم پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم قائد کے نام سے موسوم یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ سوشل میڈیا ہی کے ذریعے معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں کل کوئی دس بارہ ہندو تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

 اگر یہ تقریب ہندو طلبا و طالبات منا رہے ہوتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اس ہندوانہ رسم کو بڑی تعداد میں مسلمان طالب علموں (لڑکیوں اور لڑکوں) نےبھی ایسے منایا ، جیسے کہ یہ کوئی ہماری اپنی رسم ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یونیورسٹی لیول تک پڑھنے والے ہمارے نوجوانوں کو اپنی دینی تعلیمات کا علم نہیں۔

 حیرانی اس بات پر بھی ہوئی کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وائس چانسلر نے کیسے ہولی کی اس تقریب کی اجازت دے دی۔ کسی نے ٹیوٹر پر خوب لکھا کہ’’ اپنی اقدار اور روایات سے ناواقف اِس نوجون نسل کی تربیت جن کی ذمہ داری تھی وہ خود تربیت کے قابل ہیں۔‘‘ یہ بھی کہا گیا کہ اپنی نئی نسل کو یہاں تک پہنچانے میں میڈیا، تعلیمی اداروں، سیاسی اداروں، حکومت، خاندان سب کا کردار ہے۔

 آئین تو یہاں رہنے والے مسلمانوں کواسلامی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عہد کرتا ہے لیکن آئین کے اس حصے پر عملدرآمد کی بجائے اس کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے جس پر نہ کوئی قانون کی حکمرانی اور نہ ہی آئین کی پاسداری کی بات کرتا ہے۔

 اسلام کیا کہتا ہے، آئین پاکستان میں کیا لکھا ہے اس پر کسی کی توجہ نہیں۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اور نظریہ کیا تھا؟ آزادی کے وقت نعرہ کون سا بلند کیا گیا؟ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں سے کیا وعدہ کیا گیا؟ یہ سب کچھ بھلا دیا گیا اور اب ایک نئی ’’تہذیب‘‘ کو قوم پر مسلط کیا جا رہا ہے ،جس میں سیکولر طبقے، میڈیا ، نام نہاد سول سوسائٹی، این جی اوز وغیرہ کا بڑا کردار ہے ۔

 اس طبقےکے سامنے ہمارے سیاستدان، عدلیہ، حکومت سب سر جھکائے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری دینی و معاشرتی اقدار کو کھلے عام نشانہ بنایا جا تا ہے اور مغربی اور بھارتی کلچر کو خوب پھیلایا جا رہا ہے۔ بے شرمی اوربے حیائی تو بہت عام ہو چکی اور اس سلسلے میں ٹی وی چینلز کا انتہائی گھٹیا کردار ہے۔ بے حیائی کے ساتھ ساتھ جس گندگی کو تہذیب کے نام پر یہاں پھیلایا جا رہا ہے اُس میں اب تو ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔ کھل کر اور دبے لفظوں میں بھی ہم جنس پرستی کی حمایت کی جاتی ہے۔

 مغرب سے مرعوب طبقے نے یہاں حقوق نسواں، آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر عورت کو گھر سے، اپنے خاوند، بھائی، باپ اور خاندان سے دور کرکےبربادی کا کاروبارشروع کیا ہوا ہے۔ شادی اور گھر کو قید ،اور طلاق پر خوشیاں منانے کو رواج دے کر ہم پر مسلط کی جانے والی ’’تہذیب‘‘ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ آہستہ آہستہ سب کچھ اپناتے چلےجا رہے ہیں۔ 

کوئی رکاوٹ نہیں، کوئی بولتا بھی نہیں۔ جو کچھ قائد اعظم یونیورسٹی میں ہوا اس پرحکومت کو ادارے کی انتظامیہ کے خلاف تادیبی کاروائی کرنی چاہئے۔ اس سے اہم بات یہ کہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور اساتذہ کی تعیناتی کے وقت اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوں اور ہماری دینی اور معاشرتی اقدار کو اہمیت دیتے ہوں۔ 

اگر اساتذہ اسلام سے دور ہوں گے اور مغربی اور بھارتی کلچر سے مرعوب ہوں گے تو پھر ایسی ہی نسل پروان چڑھے گی جس کی کوئی تہذیب ہی نہ ہو گی۔ جو اپنے اصل سے تو شرماتی ہوگی لیکن غیروں کی نقالی میں فخر محسوس کرتی ہو گی ۔ بحیثیت قوم ہم اپنی نسل کو تباہ وہ برباد کر رہے ہیں۔ جونسل اپنی اصل، اپنی پہچان، اپنے دین اور اپنی اقدار سے واقف نہ ہو اور اس پر فخر نہ کرتی ہو تو ایسی نسل کا کیا بنے گا؟ یہ لمحہ فکر یہ ہے جس پر ہماری ریاست، حکومت، سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ سب کو غور کرنا چاہئے۔ اپنی قوم اور نسل کی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر تربیت اور کردار سازی وہ اہم ترین ذمہ داری ہے جس پر اگر ہم نے توجہ نہ دی تو ہمارا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔