بلاگ
Time 05 جولائی ، 2023

مارشل لا کے خلاف منفرد مزاحمت

5؍جولائی 1977کومارشل لا لگنے کے بعد جب سیاست اور صحافت دونوں ہی زیر عتاب آئے ، ملک میں سنسر شپ لگا دی گئی تو صحافیوں اور سیاسی کارکنوں نے جیلوں کے اندر رہ کر اخبارات بھی نکالے، رسائل بھی اور پمفلٹ بھی، جن کو جیلوں سے باہر کارکنوں اور عوام میں تقسیم کا کام ایک بے لوث خاتون مائی ناگوری نے انجام دیا۔

 کبھی وہ کراچی پریس کلب میں کسی تقریب میں یہ مواد تقسیم کرتی نظر آتیں تو کبھی نماز جمعہ کے بعد مساجد کے سامنے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہتھیار سے بڑا جرم کتاب تھا، پمفلٹ تھا اور حکومت مخالف اخبارات تھے۔ کئی دوستوں کو میکسم گور کی کتاب ’ماں ‘رکھنے پر جیل ہوئی۔

صحافیوں کی تحریک میں کئی سو صحافی ملک کی مختلف جیلوں میں گئے تو انہوں نے سنجیدہ سیاسی کارکنوں کے ساتھ مل کر لکھنے پڑھنے کا کام کیا۔ صرف سینٹرل جیل کراچی سے تین اخبارات زندان، تلوار اور مصدق نکالے گئے۔ اس کے علاوہ جب پی پی پی کے ترجمان اخبار، مساوات پر پابندی عائد ہوئی تو زیر زمین رہتے ہوئےکچھ صحافیوں اور سیاسی لوگوں نے’ مساوات دبئی‘ کے نام سے اخبار نکالا۔

 اسی طرح کوٹ لکھپت جیل میں جب ویکلی ویو پوائنٹ کی پوری ٹیم جن میں مظہر علی خان آئی اے رحمٰن ، حسین نقی اور دیگر گرفتار ہوئے تو انہوں نے جیلر سے درخواست کی کہ ہمیں ایک ٹیبل اور چند کرسیاں دے دیں جہاں بیٹھ کر وہ ویو پوائنٹ تیار کیا کرتے تھے پھر وہ کسی ملاقاتی کے ہاتھوں باہر پہنچا دیا جاتا تھا جس سے حکومت خاصی پریشان تھی۔

کراچی جیل سے مائی ناگوری اخبار تلوار، اور مصدق کی کاپیاں فوٹو اسٹیٹ کروا کے لوگوں میں تقسیم کرتیں۔ ایک رات جیل میں اس بیرک پرچھاپہ پڑ گیا اور سارا مواد جیلر غالباً ان کا نام جمیل تھا، نے ضبط کر لیا۔ اس پر سیاسی قیدیوں نے ان سے درخواست کی کہ معاملے کو یہیں دبا دیں ورنہ ہم تو کہہ دیں گے کہ اس سارے مواد کیلئے قلم اور کاغذ آپ نے دیا تھا۔ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور ٹل گئی۔

 دوسری طرف اخبار زندان صحافیوں نے خود نکالا جس کی ایک کاپی ہمارے ساتھی صوفی صاحب نے مجھے دکھائی ان کا تعلق مساوات سے تھا اور گرفتاری دینے کے بعد انہوں نے کچھ دوسرے ساتھیوں کو ملا کر یہ کام کیا۔ کبھی یہ دو کبھی چار صفحہ کا ہوتا تھا۔ جیل میں بند کیمونسٹ قیدیوں کا اپنا انداز تھا ان کے وہاں بھی اسٹڈی سرکل چلتے تھے ساتھ میں پارٹی کے ترجمان سرخ پرچم کیلئے مواد بھی وہیں سے باہر سپلائی کیا جاتا تھا۔

مزاحمت کے اس دور میں جیلوں میں مارشل لا مخالف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنمائوں کے علاوہ صحافی، طلبہ تنظیموں کے لوگ کالج اور جامعات کے پروفیسرز، ڈاکٹرز اور فنکار لوگ بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ مزدور تنظیموں، وکلا اور ہاری کمیٹیوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ مختلف بیرکوں میں یا تو سیاست پر گفتگو ہوتی یا درس و تدریس کا کام۔ اس طرز سیاست کا اثر عام قیدیوں پر بھی پڑا اور انہوں نے بھی درخواست کی کہ انہیں بھی اس میں شامل کیا جائے ۔ ایک بار ڈان اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافی اور کراچی پریس کلب کے سابق صدر صبیح الدین غوثی نے میاں والی جیل سے خط میں انکشاف کیاکہ یہاں عام قیدیوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے گلے میں سر بہت ہے اورموسیقی سے لگائو ہے۔ کسی کو بے روزگاری نے جرم کرنے پر مجبور کیا توکوئی زندگی سے تنگ تھا۔

ان 11برسوں میں جیلوں کے اندر جتنا پڑھنے لکھنے کا کام ہوا وہ خود ایک پوری کتاب ہے۔ وہ چاہے بائیں بازو کا لٹریچر ہو یا لبرل اور روشن خیال لوگوں کا ۔ایک وقت میں یہ کام ڈاکٹر ظفر عارف نے شروع کیا تھا کیونکہ وہ خود جیل میں نوجوانوں کو جمع کر کے اسٹڈی سرکل کیا کرتے۔ اب تصور کریں ہماری ریاست کن لوگوں کوغدار جیسے القاب سے نواز رہی تھی۔

 ان میں ایسے کمیونسٹ لوگ بھی شامل تھے جن پر ملک دشمن سرگرمیوں کا الزام تھا مگر جب 1981 میں PIA کا جہاز اغوا ہوا اور اغوا کاروں نے جن سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ان میں یہ لوگ بھی شامل تھے۔ مگر انہو ں نے رہا ہونےسے اس بنا پر انکار کر دیا کہ وہ اس طرز سیاست ،جس میں تشدد شامل ہو، یقین نہیں رکھتے۔ جب انہیں زبردستی بھیجنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے دھمکی دی کہ وہ اپنے آپ کو مار لیں گے لہٰذا ان کے نام ڈراپ کر دیئے گئے ان میں جام ساقی، سہیل سانگھی،بشیر شرر، امر لال، کمال وارثی۔ جبار خٹک اور پروفیسر جمال نقوی شامل تھے۔

سیاسی طور پر الذوالفقار تنظیم سے اور ان کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے سیاست کو نقصان پہنچا ،خود بھٹو خاندان تقسیم ہو گیا۔ مرتضیٰ بھٹو اور شاہ نواز اس گروپ کی قیادت کر رہے تھے جبکہ بے نظیر بھٹو اس کی مخالف تھیں۔ اس سے پہلے بھٹو کی پھانسی میں ابھی کچھ وقت تھا اور پارٹی کے اندر یہ بے چینی بڑھ رہی تھی کہ پارٹی کے کئی رہنما کارکنوں سے جھوٹ بول رہے ہیں، اسی فرسٹریشن میں کارکنوں نے ازخود اپنے آپ کو زندہ جلانے کی کوشش کی اور پھر کچھ کارکن جاں بحق بھی ہوئے۔ 

پھانسی کے بعد پی پی پی کے کوئی چار یا پانچ کارکن پھانسی چڑھ گئے جن میں ناصر بلوچ، ایاز سموں ،ادریس توتی اور عثمان نمایاں ہیں۔مزاحمتی سیاست کا ایک انداز ہمیں ان برسوں میں فنکاروں اور ادیبوں میں بھی نظر آتا ہے جن میں نمایاں نام اسلم اظہر، منصور سعید ،شاہد ندیم، مدیحہ گوہر، شیما کرمانی، مشتاق گزدر شامل ہیں۔ کئی تھیٹر گروپس وجود میں آئے جن میں دستک، اجوکا وغیرہ شامل ہیں۔

ملک میں مارشل لا لگا تو پہلی مزاحمتی آواز حبیب جالب کی تھی ، ’ظلمت کو ضیاء سرسرکا صبا بندےکو خدا کیا لکھنا‘۔ دوسری آواز صحافی رہنما نثار عثمانی ، منہاج برنا ، انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کی تھی۔ کراچی پریس کلب مزاحمت کا استعارہ بن گیا تھا جس پر ریاست پابندی لگاتی کلب اسے تا حیات ممبر شپ دیتا۔ ویمن ایکشن فورم نے خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں نمایاں کام کیا۔

اس لازوال مزاحمتی سیاست کا نچوڑ تو یہ تھا کہ ہم ایک بہتر جمہوری معاشرہ قائم کرتے۔ 11سال کی آمریت کے خاتمے پر یہ موقع سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں نے معذرت کے ساتھ نام نہاد مفاہمت کے نام پر گنوا دیا، نہ صرف آمروں کی آئین میں کی گئی ترامیم برقرار رکھی گئیں بلکہ ان کی باقیات کو وزارتوں سے سرفراز کیا۔ نواب زادہ نصر اللہ کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروایا۔ سیاست نظریات سے کاروبار بن گئی اور اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ پارلیمنٹ فوجی عدالتوں کے حق میں قرار داد منظور کرتی ہےاور انتظار ہے کہ کب سابق وزیر اعظم کو نااہل کیا جاتااور فوجی عدالت سے سزا ہوتی ہے۔ ویسے توہماری اعلیٰ عدلیہ نے تاریخ میں ایک وزیر اعظم کا جوڈیشل مرڈر کیا۔ دو کو نااہل اور چار مارشل لا کو آئینی اور قانونی قرار دیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔