10 جولائی ، 2023
سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا واقعی انتخابات اکتوبر نومبر میں ہوں گے؟
اس سوال کا جواب ایک اور سوال سے منسلک ہے کہ کیا عمران خان کے مائنس ہونے اور نواز شریف کے عملی سیاست میں واپسی کے عمل کے مکمل ہونے تک الیکشن ممکن ہیں؟
کسی کے مائنس ہونے اور کسی کے پلس ہونے کا یہ سلسلہ پرانا ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا، جس میں اگر اسٹیبلشمنٹ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا تو سیاستدانوں نے بھی کبھی اس سلسلہ کو روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ الٹا ایسا کردار ادا کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس کردار کو مضبوط ہی کیا جائے۔
سویلین بالادستی کا نعرہ سیاستدانوں کی طرف سے صرف اُسی وقت لگایا جاتا ہے جب سیاسی طور پر اُنہیں اپنے لئے اس میں فائدہ نظر آتا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق سے اُنہیں اپنے اقتدار میں آنے کی امید ہوتی ہے تو پھر وہ سیاسی بالادستی کے اس نعرے کو بھلا کر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر حکومت میں آنے کیلئے ہر جائز ناجائز کام کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔
اقتدار کی اس جنگ میں ایک دوسرے کو مائنس کرنے کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ بظاہر اس جنگ میں ایک سیاستدان جیت رہا ہوتا ہے اور دوسرا سیاستدان ہار رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں شکست سیاست کی ہی ہو رہی ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ طاقت ور ہی رہتی ہے، جو دراصل کسی ایک کو مائنس اور کسی دوسرے کو پلس کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں یہی کچھ ماضی میں ہوا۔ آج جس بات پر عمران خان کو بہت اعتراض ہے چند سال پہلے وہ اُسی کھیل کا حصہ تھے۔ کل عمران خان نواز شریف کے مائنس ہونے پر خوش تھے، آج پوری پی ڈی ایم، ن لیگ بشمول نواز شریف، عمران خان کے مائنس ہونے پر خوش ہیں۔ کل جن حالات کا ن لیگ کو سامنا تھا آج ویسے ہی حالات کا تحریک انصاف کو سامناہے۔ 9مئی کے واقعات کی وجہ سے تحریک انصاف کیلئے صورتحال زیادہ خراب نظر آتی ہے لیکن اس کی اصل ذمہ داری عمران خان اور پی ٹی آئی پر ہی آتی ہے۔
سول اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کی جنگ کبھی سول کے حق میں نہیں ہوئی اور اُس کی بڑی وجہ یہ رہی کہ سول حکومتوں نے کبھی پرفارمنس اور کارکردگی پر توجہ نہیں دی، ادارے بنانے میں دلچسپی نہ دکھائی، گورننس عدم توجہی کا شکار رہی، معیشت بھی عدم استحکام کا ہی شکار رہی۔
اگر سول حکومتوں کا کہیں زور رہا تو وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر، جس کا نقصان ہمیشہ سیاستدانوں کو ہی ہوا، وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے۔
اگر میاں نواز شریف نے 2017 میں اپنے اقتدار کے خاتمے (جس میں عمران خان کا اہم کردار تھا) پر’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کا نعرہ لگایا تو تین بار اس ملک کا وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب نے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کر کے اُسی نعرہ کی نفی کردی۔
عمران خان اپنے پورے دورِ اقتدار میں آرمی چیف کے گن گاتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفوں کو چور ڈاکو کہتے رہے، اُنہیں جیلوں میں ڈالتے رہے اور اہم سے اہم ملکی مفاد کے معاملہ پر بھی اپوزیشن سے ہاتھ ملانے اور اُس کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ایک بار بھی تیار نہ ہوے۔
عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو ن لیگ اور پی ڈی ایم کے وارے نیارے ہو گئے اور پھر جو پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر نالاں تھے وہ اسٹیبلشمنٹ کے گن گانے لگے اور جو اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر بیٹھ کراقتدار میں آئے تھے اپنے اقتدار کے خاتمے پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے۔
اس دوران عمران خان سے دو بڑی غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے رہے، اُس پر ہر قسم کا الزام بھی لگاتے رہے، یہاں تک کہ فوج کو بھی ٹارگٹ کرتے رہے لیکن اس سب کا مقصد سولین بالادستی نہیں بلکہ محض یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو دوبارہ قبول کر لے اور اُن کے مخالفوں کو پہلے کی طرح حکومت سے نکالے تاکہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ جائیں۔
9 مئی کو عمران خان اور تحریک انصاف نے دوسری غلطی کر دی جو اس قدر سنگین تھی کہ جس کے بارے میں فوج نے ہر فورم پر یہ کہا کہ ایسا تو پاکستان کا بدترین بیرونی دشمن سات دہائیوں میں نہ کر سکا جو تحریک انصاف نے9 مئی کو کردیا۔
اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی سیاستدان اور سول حکومتیں صرف پرفارمنس، بہترین طرز حکمرانی، مضبوط معیشت، اصلاحات اور اداروں کو مضبوط کرکےہی جیت سکتی ہیں، اُس لڑائی کو جو رخ 9 مئی کو دیا گیا اُس نے عمران خان کی سیاست کو تو تباہ کیا ہی ہے سویلین بالادستی کے خواب کو بھی مزید دھندلا کر دیا ہے ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔