24 جولائی ، 2023
مغرب جوخود کو تہذیب یافتہ تصور کرتا ہے ، دراصل بدتہذیبی، انسان دشمنی اور نفرت کی بدترین مثال ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت وہاں نہ ختم ہونے والےاسلام مخالف گستاخانہ عوامل ہیں۔ اسلام دشمنی اور گستاخانہ عمل کا وہاں بار بار مظاہرہ کیا جاتاہے اور گزشتہ چند ہفتوں میں جسے دوبار سوئیڈن میں دہرایا گیا اُس کو وہاں کی حکومت کی مکمل حمایت حاصل رہی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اسلام مخالف گستاخانہ اقدامات کا مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کو شدید دکھ اورتکلیف پہنچانا ہوتاہے جس کا مغربی ممالک آزادی رائے کے نام پر بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہیں، باوجود اس کے کہ ایسے قابل مذمت اور افسوس واقعات معاشروں میں نفرت اور تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مغرب یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو اُبھارا جائے اور اُنہیں تشدد پر مجبور کیا جائے۔ اگر یہودیوں کے مذہبی جذبات کے بارے میں مغرب بہت حساس ہے تو وہی مغرب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے بارے میں اتنا لاتعلق کیسے ہو سکتا ہے؟
اس لئے کسی کو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ مغرب میں اسلام مخالف گستاخانہ واقعات کا مقصد مسلمانوں کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچانا ہے۔ گویا اسلام دشمنوں نے جو کرنا ہے اور اُن کا جو مقصد ہے وہ سب پر عیاں ہے لیکن تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسے شرمناک اور نفرت انگیز واقعات کو روکنے کیلئے مسلمان ممالک اور اسلامی دنیا کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہیں جب بھی کوئی ایسا واقع ہوتا ہے تو اس پر مسلمان ممالک کی طرف سے مذمتی بیان جاری کرنے کے ساتھ ساتھ او آئی سی(اسلامی ممالک کی تنظیم) کا اجلاس بلالیا جاتا ہے۔ او آئی سی بھی بس مذمت کی حد تک ہی محدود رہتی ہے۔
گویا مسلمان ممالک کی طرف سے کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دیا جاتا جس سے مغرب میں اسلام دشمنوں کو مزید شہ ملتی ہے اور یوں ایسے واقعات رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ اسلام دشمنوں کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے واقعات سے مسلمان ملکوں کے اندر اشتعال پیدا کرکے وہاں کے عوام کو جلاو گھیراو پر اکسایا جائے۔ ایسے واقعات پر مسلمانوں میں غم و غصہ کے جذبات کاپیدا ہونا ایک فطری عمل ہے ،جس کیلئےایک طرف بڑے بڑے پرامن مظاہروں اور میڈیا کے ذریعے اپنا ردعمل دینے کی ضرورت ہے تودوسری طرف مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف اُن ممالک میںپُرامن احتجاجی مظاہر ے کریں بلکہ متعلقہ حکومتوں پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے ایسے گستاخانہ عمل کے خلاف وہاں کی رائے عامہ کو مسلمانوں کے بیانیہ سے آگاہ کریں۔
سب سے اہم کردار مسلمان ممالک کی حکومتوں اور او آئی سی کا بنتا ہے لیکن وہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ ورنہ اگر او آئی سی اور مسلمان ممالک صرف یہی فیصلہ کرلیںکہ جو ملک کسی ایسے گستاخانہ عمل کی اجازت دے گا یا کسی ایسے عمل کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا تو اُس سے تمام مسلمان ممالک اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کر دیں گے، تو یقین جانیں یہ واقعات رک جائیں۔ یعنی اگر اس اسلام دشمنی کو روکنا ہے تو مسلمان ممالک کی حکمت عملی مشترکہ ہونی چاہئے۔
لیکن ایسا کچھ نہیں ہو رہا اور یہی سب سے بڑے دکھ کی بات ہے۔ اسی دکھ کا اظہار محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ٹوئٹ میں کچھ اس طرح سے کیا:’’اپنی اس نااہلی اور انتہائی کمزوری کا شکوہ اپنے آپ کے علاوہ کس سے کریں کہ قرآن کریم اور ناموس رسالت ﷺ پر بار بار حملے دیکھنے کے باوجود ہم اپنی غیرت ایمانی کے اصل تقاضوں پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم صرف زبانی احتجاج کر سکتے ہیں لیکن کم سے کم ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ ان سے سفارتی تعلقات توڑ سکتے ہیں نہ ان کی مصنوعات کا موثر اور دیرپا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ یا اللہ ہمارے گناہ معاف فرماکر ہمیں اس ذلت کا مداوا کرنے کی توفیق عطا فرما۔‘‘
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔