بلاگ
Time 26 جولائی ، 2023

یہ ’’خبر‘‘ نہیں چلے گی

جہاں صحافی بھی لاپتہ ہوں اور صحافت بھی، جہاں قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہو ’’یہ خبر نہیں چلے گی‘‘ اس کا نام نہیں لیا جا سکتا وہاں غیر مصدقہ تو چھوڑیں مصدقہ خبر بھی نہیں چل سکتی۔ کہیں اخبار یا چینل بند ہوجانے کا خوف، کہیں اشتہار بند ہوجانے، کبھی ’’ذرائع‘‘ نہ بتانے پر تشدد تو کبھی بغاوت کا مقدمہ..... بدقسمتی سے جو فیصلے میڈیا اسٹیک ہولڈرز کو خود کرنے چاہئیں وہ اسپیس آج ہم حکمرانوں کے حوالے کرنے جا رہے ہیں۔ 

خبر تو ہوتی ہی مصدقہ ہے ورنہ وہ ڈس انفارمیشن یا مس انفارمیشن ہوتی ہے مگر اس کا اختیار کلی طور پر اخبار کے مدیر یا چینل ہیڈ کا ہوتا ہے۔ وزارتِ اطلاعات کا نہیں جو خود ڈس انفارمیشن کا سب سے موثر ذریعہ رہی ہے، اپنے قیام سے لے کر اب تک۔ نامعلوم کال کی تو تصدیق بھی نہیں کرسکتے۔آج صحافت زوال پذیر ہے اور یہ خبر مصدقہ ہے۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اس زوال کے اسباب کیا ہیں اور کون ذمہ دار ہے؟ لیکن اس ناچیز کی ناقص رائے میں صحافتی اصول اور ضوابط کے فیصلے اِن ہاؤس ہونے چاہئیں کسی پیمرا، پیکا، پریس آرڈیننس کے ذریعے نہیں۔ اب تو صحافیوں میں تقسیم اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ درجنوں گروپ، ایسوسی ایشنز اور تنظیمیں ہیں۔

فیک نیوز یا ڈس انفارمیشن صحافت کیلئے زہر قاتل ہے لیکن میڈیا کی اس دوڑ میں آج سوشل میڈیا جو اس کا ایک بڑا ذریعہ ہے، سب سے آگے اور پرنٹ میڈیا جو تمام تر خامیوں کے باوجود سب سے متوازن سمجھا جاتا ہے اس ریس میں سب سے پیچھے ہے۔ ہمارے یہاں ’’ذرائع‘‘ سے خبر دینے کا کلچر بہت عام ہے یہ بھی صحافتی اصولوں میں سے ایک ہے کہ رپورٹر اپنی خبر کے ذرائع ماسوائے ایڈیٹر یا مالک کے کسی کو نہیں بتاتا البتہ اپنی خبر پر قائم رہنے کی صورت میں مصدقہ خبر ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

آج سے چند سال پہلے سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیربحث آیا کیونکہ خبر بھی ان ججز کے ڈی نوٹیفائی ہونے کی تھی جن کو جنرل پرویز مشرف نے نہ صرف استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا تھا بلکہ نظربند بھی۔ 2007میں ان کی بحالی کی تحریک چلی اور 2009میں ان کو بحال کردیا گیا جس کے چند ماہ بعد یہ خبر ذرائع سے چلی۔ اس خبر نے ایک ہنگامہ برپا کردیا اور رات گئے حکومت نے اس کی تردید کردی۔ مگر معاملہ یہیں ختم نہ ہوا۔ ایک کمیشن بنا، ڈان کے جناب حمید ہارون کی سربراہی میں جس میں تمام میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں کے علاوہ وزارتِ اطلاعات کے سیکرٹری بھی تھے۔

 اس شام اس حوالے سے جتنے ’’ٹاک شوز‘‘ ہوئے ان کے اینکرز کو بیان دینے کیلئے بلایا گیا اور پھر متعلقہ رپورٹر کو کیونکہ حکومت کی تردید کے بعد یہ بوجھ صحافی پر تھا کہ اگر وہ خبر پر قائم ہے تو اسے ثبوت دینے پڑ سکتے ہیں اگر کوئی کیس ہوتا ہے، یہ اپنی نوعیت کا بہت دلچسپ ’’مقدمہ‘‘ تھا جس کے آخر میں محترم حمید ہارون نے کوئی سات یا آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا کہ صحافی اپنے ذرائع نہیں بتاتا البتہ جب کوئی خبر حساس نوعیت کی ہو اور جس میں یہ خدشہ بھی موجود ہو کہ بات کسی حد تک بھی جا سکتی ہے تو یہ ضروری اور بہتر ہے کہ ایک سے زائد ذرائع سے اس کی تصدیق کی جائے۔ بعد میں پتہ چلا کہ خبر سپریم کورٹ کے ہی ایک ’’جج‘‘ صاحب نے لیک کروائی تھی۔

حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں اقتدار بھی ہوتا ہے اور اختیار بھی، غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ میں ہتھیار اور ان تینوں کا نشانہ صحافی، اخبار یا چینل ہوتا ہے۔ اس ملک میں ایسا بھی وقت تھا جب اخبارات پر لازم تھا کہ ایم کیو ایم کی پریس ریلیز کو اسٹاف رپورٹ کے نام سے چھاپو۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب تحریک طالبان پاکستان یا فرقہ وارانہ تنظیمیں خاص طور پر کے پی اور بلوچستان میں یہ تک ہدایت جاری کرتی تھیں کہ یہ ’’خبر‘‘ کس پیج پر لگے گی اور کتنے کالم کی۔

 یوں بھی ہوا کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے ان خبروں کے لگانے پر اخبارات کے مدیروں پر بغاوت کے مقدمات کو درست قرار دیا۔سخت ترین سنسر شپ کے زمانے میں بھی ’’خبر‘‘ کو کس طرح لکھنا ہے کہ پکڑ میں نہ آئیں، صحافیوں کو بھی پتا ہوتا تھا اور مدیروں کو بھی۔ کسی مشکل کی صورت میں ایڈیٹر ذمہ داری بھی لینے کا حوصلہ رکھتا تھا۔ لہٰذا اگر آپ نے اس ملک میں زور زبردستی کی صحافت کا مقابلہ کرنا ہے تو خدارا ایڈیٹر کے ادارے کو بحال کریں۔

حال ہی میں الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی، پیمرا ترمیمی بل قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں منظور کرلیا گیا۔ وزیر اطلاعات بھی بہت خوش ہیں، پی بی اے جو ٹی وی مالکان کی تنظیم ہے، نے مبارک باد دی ہے اور وزیر صاحب نے ایک صحافی تنظیم کے رہنماؤں کے نام بھی لئے ہیں کہ وہ مشاورت کا حصہ تھے۔ کاش وزیرِ اطلاعات اس سلسلے میں پیمرا کے حوالے سے چند سال پہلے جناب جسٹس ناصر اسلم زاہد اور سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار کی ’’میڈیا کمیشن رپورٹ 2013‘‘ کو پڑھ لیتیں کیونکہ انہیں اعتراض ہے کہ پیمرا ترمیمی بل پر جو لوگ اعتراض کر رہے ہیں انہوں نے بل کو نہیں پڑھا۔ اب اس پر میں کیا کہوں کہ چند سال پہلے مسلم لیگ کی حکومت میں پریس کے حوالے سے ہی ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا اور وزیر اطلاعات کو پتا نہیں تھا۔ البتہ اچھی بات یہ تھی کہ انہوں نے فوری طور پر ان افسران کیخلاف کارروائی کی۔

اس کمیشن کی 300صفحات پر مشتمل رپورٹ میں پیمرا کی تشکیل نو کے حوالے سے انتہائی ٹھوس اور قابل عمل تجویز ہے جس میں پیمرا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بن سکتا ہے۔ چیئرمین پیمرا اور شکایت سیل کا تقرر ایک چھ رکنی کمیٹی کرے جس میں دونوں ایوانوں کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف اور تین ارکان سول سوسائٹی اور میڈیا کے ہوں۔ یہ کمیٹی تین نام چیئرمین پیمرا کیلئے وزیراعظم کو تجویز کرے جس میں سے ایک چیئرمین کیلئے نامزد کیا جائے۔ کمیٹی کونسل کا تقرر بھی خود کرے ۔

اس طرح خاصی حد تک حکومت، اپوزیشن اور سول سوسائٹی مل کر پیمرا کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔اچھی بات ہے حکومت کو ڈس انفارمیشن کی فکر لاحق ہے اور مجھ سمیت تمام پروفیشنل صحافیوں کو بھی فکر ہےتوکیا ہی اچھا ہو جاتے جاتے وہ وزارت اطلاعات کے خاتمہ کا بھی اعلان کرتی جائیں جو کرپشن اور فیک نیوز کا کوئی چھ دہائیوں سے ذریعہ رہا ہے، بذریعہ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان۔

چلیں ہماری اور حکومت کی نوک جھونک تو چلتی رہے گی مگر ان کا کیا کریں جہاں سے بس یہ کال آتی ہے ’’یہ خبر نہیں چلے گی‘‘۔ اب یہ وہ ہیں جن پر آرٹیکل 19کے تحت تنقید نہیں کرسکتا یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ کام آپ کا نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔