03 اگست ، 2023
سول جج عاصم حفیظ اسلام آباد کے گھر تشدد کا نشانہ بننے والی 14 سالہ ملازمہ رضوانہ کی والدہ نے جج کی جانب سے فون پر کی جانے والی باتیں جیو نیوز کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے بچی رضوانہ کی والدہ شمیم بی بی کا کہنا تھا میرے 10 بچے ہیں، 14 سال کی رضوانہ 7 ماہ سے جج کے گھر پر کام کر رہی تھی جسے ماہانہ 10 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی، بیٹی کو مختار وڑائچ نامی شخص کے ذریعے نوکری پر لگوایا تھا۔
شمیم بی بی نے بتایا کہ بیٹی سے 2 مرتبہ ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، فون پر گھر کی مالکن بتاتی تھیں کہ بچی گھر پر اچھی طرح رہ رہی ہے، باجی بتاتی تھیں کہ جج صاحب کوئی چیز لاتے تو پہلے رضوانہ کو کھلاتے ہیں اور پھر اپنے بچوں کو دیتے ہیں، باجی کہتی تھیں کہ بیٹی سے فون پر زیادہ بات نہ کیا کرو بچی اداس ہو جاتی ہے۔
رضوانہ کی والدہ نے بتایا کہ مختار وڑائچ نے گھر آکر کہا کہ باجی نے کہا ہے اپنی بیٹی گھر لے جائیں، پھر میں بچی کو لینے 7 بجے اسلام آباد پہنچی تو مختار وڑائچ نے اڈے پر انتظار کرنے کا کہا، رات 9 بجے خاتون میری بچی رضوانہ کو لے کر آئی، خاتون نے کہا کہ اپنا کوڑا کرکٹ لے جاؤ یہ گھر کا کام نہیں کرتی، جب خاتون نے بچی کو بازو سے پکڑا تو بچی کی چیخ نکلی، مجھے لگا شاید خاتون نے بچی کو غصے میں تھوڑا بہت مارا ہو گا لیکن ڈرائیور نے بچی کو گاڑی سے دھکا دیا جس سے بچی گر گئی۔
شمیم بی بی نے کہا کہ بچی کی حالت دیکھی تو ناقابل برداشت تھی، بچی نے بتایا کہ روز مارا پیٹا جاتا اور ناخن اکھاڑے گئے، بچی نے بتایا کہ میڈیم بھی مارتی تھی، آنکھوں میں ناخن مارے جاتے تھے۔
ان کا کہنا تھا بچی کو اسپتال لے کر گئے تو جج کے رشتے دار نے فون پر رابطہ کرایا، جج صاحب نے فون پر کہا کہ میری نوکری کا سوال ہے مہربانی کرو یہیں چپ کر جاؤ، مجھے فون پر کہا گیا کہ کچھ بھی کر لو یہاں انصاف نہیں ملنا، میں نے جواب دیا کہ میں غریب ضرور ہوں لیکن انصاف لے کر رہوں گی۔
متاثرہ بچی کی والدہ نے بتایا کہ ڈاکٹر بڑی توجہ دے رہے اور بچی نے تھوڑا بہت کھانا بھی شروع کر دیا ہے، ہم کوئی جھوٹ نہیں بول رہے حقیقت میں میری بچی پر ظلم ہوا ہے، چاہتی ہوں کہ میری بچی کو انصاف ملے تاکہ مستقبل میں کسی بچی پر ظلم نہ ہو۔
پروگرام مین شریک مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ قانون پر اگر عمل نہیں ہو سکتا تو پھر ایسے قوانین بنانے کا کیا فائدہ، بچی پر ظلم ہوا کس طرح ملزم کو تحفظ دیا جا رہا ہے اور ضمانت پر ضمانت ہو رہی ہے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا رضوانہ کا کیس اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، نظام اور ادارے ایسے ہونے چاہئیں جہاں انصاف کا عمل پہلے ہی شروع ہونا چاہیے، نہ پولیس انصاف دیتی ہے نہ عدالت سے انصاف ملتا ہے۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کی آمریت قائم ہے، ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں اشرافیہ کی تمام توجہ اقتدار حاصل کرنے پر ہے۔