بلاگ
Time 23 اگست ، 2023

ہائبرڈ جمہوریت کی کرامات

14اگست کو ہر سال ہم ’’یوم آزادی‘‘ مناتے ہیں۔ آزادی کیا ہوتی ہے، اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو غلام رہا ہو یا جس نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہوں مگر شاید ہم بھول گئے کہ اس آزادی کیلئے جو جمہوری جدوجہد1857ء میں شروع ہوئی تھی، اس کو کچلنےکیلئے ’’بغاوت‘‘ جیسے قوانین لائے گئے جن میں ایک ’’آفیشل سیکریٹ ایکٹ‘‘ بھی تھا۔

قیدی بدل گئے، سزا دینے والے بدل گئے، قوانین آج بھی لاگو ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ کل تک ان قوانین کی مخالفت کرنے والے آج اس کا دفاع کررہے ہیں۔ ایوان صدر کی راہداریوں میں جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ محض ایک اتفاقیہ واقعہ نہیں پوری ایک داستان ہے، نہ جانے کب تماشہ ختم ہوگا۔ اہم بات یہ نہیں کہ ’’قانون‘‘ کیسے بنا بلکہ قانون کیابنا۔آئین1973ءخداحافظ،ہائبرڈ جمہوریت کا بول بالا ہے اسلام آباد میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت قائم ہوگئی ہے۔جہاں ان کیمرہ ٹرائل ہوگا اور یوں ہم ایک نئی تاریخ لکھنے جارہے ہیں، جمہوری مارشل لا کی۔

محترم عارف علوی صاحب پیشہ کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں مگر صدر بننے کے بعد وہ چلے تھے ’’کینسر‘‘ کا علاج کرنے، اب نسخہ کہیں کھوگیا ہے تو پہلا سوال تو انہی سے بنتا ہے کہ آخر نسخہ میں لکھا کیا تھا، کمپائوڈر کون تھا۔ ’’ہٹ وکٹ‘‘ تو وہ ہوگئے ہیں، تھرڈ ایمپائر کے فیصلے کا انتظار ہے۔ معاملات زیادہ بگڑے تو کہیں وہ خود اسی قانون کی زد میں نہ آ جائیں۔ جب تک وہ صدر ہیں مقدمات سے بچے ہوئے ہیں مگر وہ وقت بھی آن پہنچا ہے۔ 9 ستمبر کو اپنے عہدہ سے ریٹائر ہورہے ہیں، آئین و قانون کے لحاظ سے وہ تب تک صدر رہ سکتے ہیں جب تک نئے صدر کا انتخاب نہیں ہوجاتا، جس میں تاخیر کا امکان ہے، اب اگر کھیل لمبا ہے تو ان کا وکٹ پر رہنا مشکل ہے، ویسے بھی ہمیں آئین اور قانون پر چلنے کی عادت نہیں۔

حضور جس ملک میں اقتدار ’’مقبولیت‘‘ نہیں قبولیت کی بنیاد پر دیا جاتا ہو وہاں پارلیمنٹ نے ایسے قوانین منظور کیے ہیں جو دراصل ان کے اپنے ’’وارنٹ گرفتاری‘‘ ثابت ہوں گے۔ جن دوستوں کا خیال ہے یہ ہائبرڈ ماڈل2018ء کی پیداوار ہے، وہ غلط فہمی دور کرلیں۔ یہ سب سے پہلے لاگو ہوا 1988ء کے انتخابات کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مقبولیت کے عروج پر تھیں مگر ’’قبولیت‘‘ نہیں ہورہی تھی، اس وقت معاملہ ایوان صدر میں اپنا صدر لانے کا تھا۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان کو ایک فہرست تھما دی گئی، جس پر لکھا تھا صدر، غلام اسحاق خان، وزیر خارجہ، صاحبزادہ یعقوب اور وزیر خزانہ، غالباً ڈاکٹر محبوب الحق، مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ان کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا مگر پی پی پی نے پھر بھی الیکشن جیت لیا۔ اب سارا دبائو اقتدار کی منتقلی کا تھا۔ ایوان صدر18ماہ سازشوں کا گڑھ رہا۔

جب محترمہ نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو شکست دے دی تو اسی ایوان صدر کی راہداریوں میں شاید اس لاڈویژن میں جہاں سے مبینہ طور پر ان دو بلوں کو تلاش کیا جارہا ہے جو کسی بل میں چھپ گئے ہیں، اس وقت ایک سمری تیاری کی گئی، محترمہ کی حکومت کو ختم کرنے کی۔ سخت ہدایت تھی کہ وزیراعظم کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ بھی اگست کا ہی مہینہ تھا۔ 4اگست کی صبح ایک انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ میں جناب عارف نظامی مرحوم کی خبر تھی کہ آج بے نظیر حکومت کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ محترمہ صدر صاحب سے مل کر آئیں تو خاصی مطمئن تھیں اور شاید انہوں نے نظامی صاحب سے بات بھی کی تھی کہ ’’خبر‘‘ غلط ہے اور آپ نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے۔ شام سے پہلے ہی ان کی حکومت چلی گئی (B) 58-2 کے تحت۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔