Time 23 اگست ، 2023
پاکستان

چیف جسٹس نے نیب ترامیم کو مشکوک قرار دیدیا

سوال جواب کے لیے بلائے گئے بندےکو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا نیب پراسیکیوٹر سے استفسار. فوٹو فائل
 سوال جواب کے لیے بلائے گئے بندےکو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا نیب پراسیکیوٹر سے استفسار. فوٹو فائل

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی جانب سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون میں ترمیم سے متعلق اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں۔

رہنما مسلم لیگ ن میاں جاوید لطیف کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے حکم کے خلاف نیب اپیل پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں ہوئی۔

نیب پراسیکیوٹر رضوان ستی نے کہا کہ ملزم کو گرفتاری سے پہلے مطلع کرنے کا فیصلہ خلاف قانون ہے، نیب ترمیم کا اطلاق ماضی سےکیا گیا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ جاوید لطیف کا مقدمہ انکوائری اسٹیج پر تھا، اس وقت گرفتاری نہیں ہو سکتی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 3 جولائی 2023 کی ترمیم کے بعد دوران انکوائری بھی گرفتاری ہو سکتی ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جولائی میں ہونے والی نیب ترمیم مشکوک ہیں، 3 جولائی کو کی گئی نیب ترامیم عدالتی فیصلوں سے متصادم ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ سوال جواب کے لیے بلائے گئے بندےکو جیل میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے؟ نیب قانون 2001 تک ڈریکونین تھا، نیب قانون میں ریمانڈ کا دورانیہ کم کرنے اور ضمانت دینے کی ترامیم اچھی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کی تشریح عدالتی فیصلوں اور آئین کے تناظر میں ہی ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے گرفتاری سے قبل ملزم کو آگاہ کرنے کے حکم کیخلاف نیب کی اپیل خارج کر دی اور ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم 3 جولائی کی ترمیم سے پہلے کا ہے۔

مزید خبریں :