Time 25 اگست ، 2023
پاکستان

احد چیمہ کو 3 سال قید میں رکھنے کے بعد نیب کوپتہ چلا ریفرنس بنتا ہی نہیں تھا: سپریم کورٹ

نیب قانون کا مذموم مقاصد کے لیے استعمال بند ہونا چاہیے، نیب اختیارات کے ناجائز استعمال سے زیادتی اور سختی کا آلہ بن گیا: سپریم کورٹ— فوٹو: فائل
نیب قانون کا مذموم مقاصد کے لیے استعمال بند ہونا چاہیے، نیب اختیارات کے ناجائز استعمال سے زیادتی اور سختی کا آلہ بن گیا: سپریم کورٹ— فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے نگران وزیراعظم کے مشیر احد چیمہ کی ضمانت منسوخی کی قومی احتساب بیورو (نیب) درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

سپریم کورٹ میں نگران وزیراعظم کے مشیر احد چیمہ کی ضمانت منسوخی کی نیب اپیل پر سماعت ہوئی۔ نیب نے احد چیمہ کے خلاف کیس واپس لینے کی درخواست جمع کرائی تو ججز برہم ہو گئے۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ نیب نے تین سال احد چیمہ کو جیل میں رکھا اور 24 بار ہائیکورٹ میں التوا مانگا، نیب کے کنڈکٹ کو ہائیکورٹ نے تفصیل سے فیصلے میں بیان کیا اور نیب نے وہی فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، سالوں تک بندے کو قید رکھنے کے بعد بھی نیب کہتا ہے تحقیقات میں کچھ نہیں ملا۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہاکہ ملزم کو اتنے سال قید میں رہ کر بریت کے بعد نیب پر کیس کرنا چاہیے، نیب کے پاس کسی کے بھی خلاف مقدمات بنانے کی لامحدود طاقت کیوں ہے؟

نیب پراسیکیوٹر نے بتایاکہ احد چیمہ کا کیس نیب ترامیم کے بعد نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکل چکا ہے، دوبارہ احد چیمہ کے خلاف تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ ان کے خلاف ریفرنس نہیں بنتا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب اختیارات کے ناجائز استعمال سے زیادتی اور سختی کا آلہ بن گیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بیوروکریسی کے ساتھ نیب کیا کر رہی ہے؟ بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے نیب ریفرنس کی وجہ سے خودکشی کی اور بعد میں نیب نے رپورٹ میں لکھا کہ وہ امانت دار تھے، نیب کے مس کنڈکٹ کا مداوا کون کرے گا؟ اس کیس کو نیب کے لیے مثال بنایا ہو گا، پرویزمشرف نے نیب سیاسی انجینئرنگ کے لیے بنائی اور نیب اپنے مقصد کو ثابت کر رہی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہم جانتے ہیں کہ نیب مخصوص لوگوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے، نیب میں بلیو روم، ڈارک روم بنائے گئے ہیں جو مختلف سیاسی کیسز کے لیے ہیں۔ 

جسٹس اطہر من اللہ نےریمارکس دیے کہ احد چیمہ معصوم ہیں کیونکہ ان پر اب تک جرم ثابت نہیں ہوا، انہیں تین سال تک جیل میں رکھنے کے ذمہ دار اس وقت کے چیئرمین نیب ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ احتساب کے عمل کو داغدار کیا گیا، اچھی بات یہ ہے کہ اب نیب ترامیم سے ملزمان کو ضمانت کا حق دیا گیا ہے۔

عدالت نے حکم نامے میں قرار دیاکہ نیب قانون کا مذموم مقاصد کے لیے استعمال بند ہونا چاہیے، نیب کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آلہ کار کے طور پر مخصوص افراد کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا گیا۔

عدالت نے نیب کو کارکردگی قانونی طور پر بہتر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

مزید خبریں :