گوگل سرچ انجن کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے قانونی چیلنج کا سامنا

یہ مقدمہ 3 سال قبل دائر کیا گیا تھا اب اس کی سماعت شروع ہوئی ہے / رائٹرز فوٹو
یہ مقدمہ 3 سال قبل دائر کیا گیا تھا اب اس کی سماعت شروع ہوئی ہے / رائٹرز فوٹو

گوگل سرچ انجن کو 25 سال مکمل ہو گئے ہیں اور اس موقع پر کمپنی کو اپنی تاریخ کے سب سے بڑے قانونی چیلنج کا سامنا ہے۔

امریکی حکومت کی جانب سے گوگل کے خلاف دائر مبینہ غیر قانونی اجارہ داری کے مقدمے کی سماعت شروع ہوگئی ہے جو گزشتہ 25 برسوں کے دوران اس نوعیت کا سب سے بڑا مقدمہ ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے مقدمے کے آغاز میں کہا گیا کہ گوگل نے انٹرنیٹ سرچ انجن پر اپنی بالادستی کا غیر قانونی فائدہ اٹھا کر دیگر کمپنیوں کو مقابلے سے باہر کر دیا۔

محکمہ انصاف کے وکیل Kenneth Dintzer کے مطابق یہ انٹرنیٹ کے مستقبل کا مقدمہ ہے اور اس سے طے ہوگا کہ گوگل سرچ انجن کو کبھی بامقصد مسابقت کا سامنا ہوگا یا نہیں۔

اگلے 10 ہفتوں تک امریکا کی مختلف ریاستوں کے اٹارنی جنرلز اور وکلا کی جانب سے گوگل کی مبینہ غیر قانونی اجارہ داری کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج امیت مہتا یہ مقدمہ سن رہے ہیں اور ان کی جانب سے فیصلہ اگلے سال کسی وقت سنائے جانے کا امکان ہے۔

اگر انہوں نے گوگل کے خلاف فیصلہ سنایا تو پھر ایک اور مقدمہ چلے گا جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ انٹرنیٹ کمپنی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کیسے اقدامات کیے جانے چاہیے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران گوگل اور اس کی سرپرست کمپنی الفابیٹ کے عہدیداران سمیت دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے عہدیداران پر جرح کی جائے گی۔

امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے لگ بھگ 3 سال قبل گوگل کے خلاف یہ مقدمہ دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ کمپنی نے اپنی انٹرنیٹ سرچ کی بالادستی کو حریف کمپنیوں کے خلاف غیر منصفانہ فائدے کے لیے استعمال کیا۔

حکومتی وکلا کا کہنا ہے کہ گوگل نے ہر سال اربوں ڈالرز خرچ کرکے آئی فون اور ویب براؤزرز میں اپنی ڈیفالٹ سرچ انجن کی حیثیت کو برقرار رکھا۔

Kenneth Dintzer نے کہا کہ گوگل کی جانب سے ترجیحی پوزیشن کو برقرار رکھنے کے لیے ہر سال 10 ارب ڈالرز سے زیادہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گوگل کے معاہدوں کے باعث حریف کمپنیوں کے لیے مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا، ایسا 12 سال سے زائد عرصے سے ہو رہا ہے اور ہمیشہ گوگل کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔

دوسری جانب گوگل کی جانب سے کہا گیا کہ اسے مختلف طرح کی مسابقت کا سامنا ہے اور ڈیفالٹ سرچ انجن ہونے کے باوجود صارفین متعدد طریقوں سے دیگر سروسز کو استعمال کر سکتے ہیں۔

مگر حکومتی وکیل نے کہا کہ گوگل میں زیادہ سرچز ہونے سے کمپنی زیادہ ڈیٹا اکٹھا کرتی ہے اور اس ڈیٹا کو وہ مستقبل کی سرچز بہتر بنانے کے لیے استعمال کرتی ہے، جس سے بھی گوگل کو دیگر کمپینوں کے مقابلے میں فائدہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ گوگل سرچ اور اشتہاری مصنوعات اپنی حریف کمپنیوں سے اسی وجہ سے بہتر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گوگل کی جانب سے سرچ انجن کو ڈیفالٹ رکھنے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ گوگل نے اپنے ہتھکنڈوں سے ایپل کو اپنا سرچ انجن تیار کرنے سے روک دیا۔

Kenneth Dintzer کا کہنا تھا کہ گوگل کی جانب سے برسوں سے دستاویزات کو تلف کیا جا رہا ہے تاکہ عدالتی کارروائی سے بچ سکے۔

خیال رہے کہ امریکی محکمہ انصاف نے 1998 میں اسی طرح کا مقدمہ مائیکرو سافٹ کے خلاف بھی دائر کیا تھا جس میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کی بالادستی کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اس کے نتیجے میں مائیکرو سافٹ کے ویب براؤزر اور سرچ انجن کی بالادستی ختم ہوگئی اور اس کا فائدہ گوگل کو ہوا جس نے مائیکرو سافٹ کی جگہ حاصل کرلی۔

مزید خبریں :