21 اکتوبر ، 2023
ان دنوں ن لیگ کے قائد نواز شریف کی وطن واپسی کا نقارہ زور شور سے بج رہا ہے انکی پارٹی نے اپنے تئیں انکے استقبال کی خوب تیاریاں کی ہیں مگر عوام میں ن لیگ کو ان کے سگے بھائی نے اتنی خوبی سے پاتال تک پہنچایا ہے کہ اسے اوپر اٹھانے کیلئے نواز شریف کو کوئی کرشمہ د کھانا پڑے گا، فی الوقت جس کی کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی۔
میاں صاحب کو اتنی احتیاط ضرور کرنی چاہیے کہ بھائی صاحب سمیت دیگر دو تین ہستیوں کو ذرا پیچھے ہی رکھیں ۔نواز شریف کو اپنے وطن لوٹتے دیکھ کر جہاں انکےچاہنے والوں کے چہرے کھل اٹھے ہیں وہیں کچھ حاسدوں کے چہرے مرجھا بھی گئے ہیں، وہ جلی کٹی سنا رہے ہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بن کر انہوں نے ایساکونسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ اب چوتھی بار آرہے ہیں ؟کچھ انکے انگلینڈ میں قیام کو خود ساختہ جلاوطنی کا نام دے رہے ہیں تو کچھ انہیں سزا یافتہ ہونے کے طعنے۔ حالانکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ نواز شریف پر کرپشن اور لوٹ مار کے جتنے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے ،ان میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا اور انہیں جس طرح نا اہل قرار دیا گیا وہ بھی سب پر واضح ہو چکا ہے۔
البتہ جو لوگ نواز شریف کی آمد کو کسی انقلاب کا نام دے رہے ہیں یہ ان کی سیاسی و مفاداتی مجبوری تو ہو سکتی ہے حقائق اس کی مطابقت میں ہرگز نہیں ہیں، نواز شریف کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں ہے جسے رگڑتے ہی عوامی دکھ دور اورملک کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ انتخابی کامیابی کےباوجود نواز شریف کو ایک مضبوط وزیراعظم کی حیثیت سے اس نوع کا فری ہینڈ نہیںملے گا جو پارلیمانی جمہوریت یا خود بحیثیت قومی قائد نواز شریف کا تقاضا ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے معاملات طے ہونے سے پہلے کچھ پوائنٹس ضرور اٹھائے تھے مگر ان پر واضح کر دیا گیا کہ میاں صاحب بڑی بڑی تمنائیں پالنے سے باز رہیں ۔اس حوالے سے ان کی پارٹی نے بھی زمینی حقائق کا مثبت ادراک کرتے ہوئے میاں صاحب کو بہتر استدلال سے قائل کیا یوں افہام و تفہیم کے ماحول میں معاملات طے ہو گئے ۔
ہمارے جو صحافی صاحبان اس نوع کی طعنے بازی کرتے سنائی دیتے ہیں کہ’’ میاں صاحب ووٹ کو عزت دو کا نعرہ کیا ہوا؟‘‘ یہ کہ ڈیل کے ساتھ کیوں آرہے ہیں؟ کیا نواز شریف اپنا وہ ہمزاد لندن میں ہی بٹھا کر آئیں گے جو کہتا تھا کہ میں اب انقلابی جنگجو بن چکا ہوں ،ڈکٹیشن نہیں لوں گا ،آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی منواؤں گا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ بجا مگر پاکستانی سیاست کی جو معروضی تلخ حقیقت ہے اسے پیش نظر رکھیں تو وہ شخص مستند سیاستدان کہلانے کا حقدار ہی نہیں ، جو ان کا ادراک نہ کرے ۔یہ ایک ایسی جدوجہد ہے جس میں دو قدم آگے بڑھتے ہوئے بعض اوقات تین قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے اگرچہ کرکٹ کے میدان سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن یہاں بھی دیکھ بھال کر چوکا یا چھکا مارنا پڑتا ہے ورنہ کیچ آئوٹ ہونے میں کون سی دیر لگتی ہے، کریز پر رہیں گے تو رنز بنائیں گے آؤٹ ہونا کون سا مشکل کام ہے نو مئی جیسی ایک حماقت سارا کھیل خراب کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔نواز شریف پر طعن و تشنیع کے جتنے مرضی تیر چلا لیے جائیں سچائی تو یہ ہے کہ اس وقت طاقتوروں کے پاس تو بھلے کئی امیر ترین متبادل ہوں گے لیکن اس ملکِ کے پاس قومی قیادت کیلئے نواز شریف سے بہتر کوئی آپشن نہیں ۔
کوئی مانے نہ مانے پاکستان کے پاس اس وقت دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے اگر کوئی قابل التفات مؤثر چہرہ ہے تو وہ نواز شریف ہے ۔پاکستان اس وقت جس پستی میں گرا پڑا ہے عالمی سطح پر آج کوئی اسے منہ لگانے کو تیار نہیں ، ہماری حالیہ برسوں کی قیادتیں ملک وقوم کو مزید بے وقعت بنا چکی ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کو ایک پاپولر قومی قیادت کی حیثیت سے پیش کرنا اس ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ طاقتوروں کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ قومی استحکام کی خاطر وہ اپنی ذمہ داریاں ضرور پوری کریں مگر آئینی و جمہوری اسلوب میں ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے ۔
اصل چیلنج ن لیگ کیلئےہونا چاہیے کہ وہ کس طرح جبری طاقتوں یا تنظیموں کا یرغمالی بننے کی بجائے تمام علاقائی اکائیوں کو ساتھ رکھتی، ملاتی یا لے کر چلتی ہے ؟ کسی طاقتور یا سیاسی گروہ کی بلیک میلنگ میں آئے بغیر وہ عوامی اعتماد کو کس طرح دوبارہ حاصل کرنے کے قابل ہو پاتی ہے تاکہ آنے والے برسوں میں یہاں سیاسی استحکام قائم و دائم ہو سکے۔ نواز شریف کا محترمہ بے نظیر کی 86ء میں وطن واپسی جیسا استقبال، بلا شبہ نواز شریف کے چاہنے والوں کیلئےایک چیلنج ہے اور دوسرا چیلنج اس افواہ کا توڑ ہے کہ یہاں کوئی کرکٹر یا کھلاڑی بڑا پاپولر ہے وطن واپسی پر اگر نواز شریف کی گرفتاری جیسی حرکت ہوتی ہےویسے وہ عدلیہ سےحفاظتی ضمانت لے چکے ہیں، تو وہ ان کی مقتدرہ کے تعاون سے ابھرتی طاقت کے بھرم کا بھرکس نکال دے گی ۔اس لیے ن لیگ والے اس سے بچنے کیلئے ہر حد تک جائیں اور عوامی مسائل حل کرنے کا ٹھوس ایجنڈا و منشور پیش فرمائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔