بلوچستان کے 8 سابق وزرائے اعلیٰ بھی الیکشن میں سیاسی قسمت آزمائیں گے

سابق وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں زیادہ تر اپنے حلقوں اور صوبے میں اپنی سیاسی اور قبائلی حیثیت کی وجہ سےالیکٹیبلز کے زمرے میں آتے ہیں—  فوٹو:فائل
سابق وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں زیادہ تر اپنے حلقوں اور صوبے میں اپنی سیاسی اور قبائلی حیثیت کی وجہ سےالیکٹیبلز کے زمرے میں آتے ہیں—  فوٹو:فائل

بلوچستان کی سیاست میں روایتی قبائلی اثر و رسوخ حاوی رہا ہے، کئی قدرآور قبائلی اور سیاسی شخصیات وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز رہیں اور اب 8 فروری کے انتخابات میں بھی صوبے سے 8 ایسی شخصیات حصہ لے رہی ہیں جو کہ وزیراعلیٰ رہ چکی ہیں۔

بلوچستان کے سرد موسم میں انتخابی گہماگہمی اور گرما گرمی کا آغازہوچکاہے، صوبے سے اس بار بھی کئی نامور سیاسی و قبائلی شخصیات صوبائی اور قومی اسمبلی کی مختلف نشستوں سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

ان میں 8 ایسی شخصیات ہیں جو پہلے بھی مختلف ادوار میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر براجمان رہ چکی ہیں۔

بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وزرائے اعلیٰ میں نواب اسلم رئیسانی جمعیت علمائے اسلام کے ٹکٹ پر پی بی 37 مستونگ، نواب ثناء اللہ زہری پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 18، جام کمال خان پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پی بی 22 لسبیلہ، سردار اختر مینگل اپنی پارٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے پی بی 20 وڈھ سے شامل ہیں۔

میر جان محمد جمالی بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 17اوستہ محمد، میر عبدالقدوس بزنجو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پی بی 23 آواران سے، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے پی بی 26 تربت اور سردار محمد صالح بھوتانی بلوچستان عوامی پارٹی کےٹکٹ پر پی بی 21 حب سے امیدوار ہیں۔

ان میں سے جام کمال خان، سرداراختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ قومی اسمبلی کی مختلف نشستوں سے بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ 

سابق وزرائے اعلیٰ میں سے میر عبدالقدوس بزنجو کو دو بار وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا موقع ملا۔ 

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق سابق وزرائے اعلیٰ کی فہرست میں زیادہ تر اپنے حلقوں اور صوبے میں اپنی سیاسی اور قبائلی حیثیت کی وجہ سےالیکٹیبلز کے زمرے میں آتے ہیں اور اب بھی ان کی کامیابی کے زیادہ امکانات بتائے جارہے ہیں تاہم حتمی طورپر ان کی کامیابی کا پتہ تو بہرحال الیکشن کے دن عوامی حمایت سے ہی چلے گا اور یہ بھی کہ ان میں سے کون آئندہ انتخابات کے بعد وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟

 مگر صوبے کے عوام کا ان انتخابات کےحوالے سے کہنا ہے کہ اب کی بار چہرے بدلیں نہ بدلیں مگرانتخابات کےنتیجے میں ان کی اور صوبے کی قسمت ضرور بدلنی چاہیے۔


مزید خبریں :