24 جنوری ، 2024
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا نے سائفر کیس میں استغاثہ کے 4 چار گواہوں پر جرح مکمل کرلی۔
سائفر کیس کی سماعت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالا جیل میں کی۔ وکلا صفائی نے سائفر کیس میں سائفر اسسٹنٹ محمد نعمان، پی آر او فارن آفس اقرا اشرف، ڈپٹی ڈائریکٹر وزرات خارجہ شمعون قیصر اور ڈپٹی ڈائریکٹر فارن آفس عمران ساجد پر مشتمل پراسیکیوشن کے 4گواہان پر جرح مکمل کرلی۔
بانی پی ٹی آئی کے وکیل نے سائفر اسسٹنٹ محمد نعمان پردوران جرح استفسار پر بتایاکہ سائفر گریڈ 2 کا تھا اور اس پر کوئی پاس ورڈ نہیں تھا جس پر ملزم کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آپ کے رولز کے مطابق گریڈ 2 کا سائفر او ٹی پی ہوتا ہے تو گواہ نے جواب دیا کہ نہیں یہ سیکرٹ ہے جس پر ملزمان کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر سے متعلق معاملہ اب معاملہ سیکرٹ نہیں رہا، 22 جنوری 2024 کو ریکارڈ کروائے گئے بیان میں سائفر کے ڈاؤن لوڈ سے متعلق نہیں بتایا گیا۔
ملزمان کے وکیل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ گواہ کو لکھوایا گیا بیان پراسیکیوٹر کا ہے اس دوران پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے مؤقف پر ملزمان کے وکیل نے اعتراض کیا کہ پراسیکیوٹر بار بار گواہ کو لقمہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ اعتراض کرنا پراسیکیوٹر کا حق ہے۔
اس دوران گواہ نے بتایا کہ اس نے اپنی میل چیک کر کے اس کو مینشن کیا تھاجس پر ملزمان کے وکیل نے استفسار کیا کہ وزارت خارجہ کی زبان میں ہینڈلرز سے کیا مراد ہے جس پر گواہ نے بتایا کہ اس سے مراد اس کے اندر کا خفیہ پیغام ہوتا ہے جس پر ملزمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ 27 جولائی 2023 کو ریکارڈ کرائے گئے پیغام میں کہا گیا کہ اس کو I-0678 نمبر ڈال کر ان سیف کیا گیا جس پر گواہ نے کہا کہ میں نے سائفر پر صرف نمبر اور تاریخ کو مینشن کیا تھاجس پر وکیل نے پوچھا کہ کیا اس سائفر کو نمبر یا پھر تاریخ دی جاسکتی ہے؟ اس پر گواہ نے بتایا کہ جی بالکل دی جاسکتی ہے۔
اس دوران ملزمان کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے گواہ کا 161 کو بیان عدالت میں پیش کرتے ہوئے دلائل دیے کہ 22 جنوری 2024 کو کہا گیا سائفر کی کاپی کمپیوٹر سے ڈاؤن لوڈ کی گئی۔
ملزمان کے وکیل نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں نے اب یہ بولنا ہے کہ سائفر سیکرٹ ہے؟ ملزمان کے وکیل نے گواہ سے استفسار کیا کہ اسسٹنٹ سائفر تعینات ہونے سے قبل آپ کی سکیورٹی کلیئرنس کب ہوئی؟ اس پر گواہ نے بتایا کہ میری سکیورٹی کلیرنس 2015 میں ہوئی تھی۔ وکیل کے سوال پر گواہ نے بتایا کہ سائفر ملنے کے بعد سکیورٹی کلیئر نہیں ہوتی اس پر عدالت نے گواہ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ پر جرح ہو چکی ہے چاہیں تو یورپ چلے جائیں۔
بعد ازاں پراسیکیوشن کے دوسرے گواہ وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد نے دوران جرح ملزمان کے وکیل کے سوال پر بتایا کہ سائفر بھیجنے والے کو معلوم ہوتا ہے سائفر کس کو بھیجا جارہا ہے اور روایت کے مطابق سائفر اگر آئے تو سیکرٹری خارجہ کو ملتا ہے جس پر وکیل صفائی نے سوال کیا کہ کیا جو کاپی سیکریٹری خارجہ کو ملی اس پر I-0678 نمبر موجود تھا؟ گواہ نے تصدیق کی کہ جی ورکنگ کاپی کا نمبر ایک جیسا تھا گواہ نے ایک سوال پر بتایا کہ جب تک میں کریپٹو سینٹر کا انچارج تھا تب تک کاپی واپس نہیں آئی تھی جس کیلئے میں نے ایف آئی اے کو آگاہ کیا تھا، آئی بی کو نہیں اور اس مقصد کیلئے میں نے سینیئر سکیورٹی افسرایف آئی اے کو سرکلر جاری کیا تھااور ڈی جی ایف آئی اے کو زبانی آگاہ کیا تھا۔
اس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گواہ نے ایف آئی اے کو لکھ کر دیا تھا جس پرملزمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ گواہ جھوٹ بول رہا ہے تو گواہ نے کہا کہ نہیں میں جھوٹ نہیں بول رہا، میں نے سائفر مسنگ پر فیروز گوندل سمیت اپنے سینیئرز کو آگاہ کیا تھااور میں نے کاپی مسنگ سے متعلق 18 اگست 2022 کو آگاہ کیا تھا۔
ملزمان کے وکیل کا موقف تھا کہ سکیورٹی آف کلاسیفائڈ میٹرز کے پیرا 8، پوائنٹ 1، پوائنٹ 7 کے تحت سینیئر سکیورٹی افسر اور آئی بی کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس سے سائفر کی کاپی واپس آئی یا نہیں؟ گواہ نے بتایا کہ جب تک میں موجود تھا وزیر اعظم ہاؤس سے سائفر کی کاپی واپس نہیں آئی تھی۔
ملزمان کے وکیل کے سوال پر گواہ نے بتایا کہ آرمی چیف کو جو سائفرکی جو کاپی بجھوائی گئی وہ 27 ستمبر 2022 کو واپس آئی۔
عمران خان کے وکلا نے سائفر کیس میں استغاثہ کے 4 چار گواہوں پر جرح مکمل کرلی۔ عدالت نے مزید گواہوں کو جرح کیلئے طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
علاوہ ازیں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سماعت سے قبل عدالت سے وکلا کے ساتھ مشاورت کیلئے وقت مانگا تو عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کرکے دونوں رہنماؤں کو وکلا سے مشاورت کی اجازت دی۔
سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل سکندر ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ گواہ کوئی اور بتائے جاتے ہیں اور پراسیکیوشن کسی اور کو لے آتی ہے، آرٹیکل 10 اے کےمطابق فیئرٹرائل ہوناچاہیے۔ وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سائفر کیس بار بار لڑکھڑاتا ہے اس کو دوبارہ کھڑا کیا جاتا ہے۔