معدے اور دماغ کے درمیان سنگین مرض کا باعث بننے والا تعلق دریافت

ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو
ایک نئی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

سائنسدانوں نے معدے اور دماغ کے درمیان موجود ایک ایسا تعلق دریافت کیا ہے جو الزائمر امراض کا باعث بنتا ہے۔

امریکا کی وسکنسن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ معدے اور دماغ کے درمیان تعلق موجود ہے جو الزائمر امراض میں ممکنہ کردار ادا کرتا ہے۔

اس سے قبل بھی جانوروں پر ہونے والے تحقیقی کام میں دریافت کیا گیا تھا کہ نظام ہاضمہ اور دماغی صحت کے درمیان تعلق موجود ہے۔

اب نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ معدے میں ورم ممکنہ طور پر الزائمر امراض سے متاثر کرنے میں کردار ادا کرتا ہے۔

اس تحقیق میں 125 افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے فضلے کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ ان افراد کے متعدد دماغی ٹیسٹ بھی کیے گئے جبکہ خاندان میں الزائمر کی تاریخ معلوم کی گئی اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان میں اس دماغی مرض کا خطرہ کتنا ہے۔

تحقیق کے دوران کلینیکل ٹیسٹ کرکے دماغ میں ایمیلوئیڈ پروٹین کے اجتماع کی علامات کو بھی دیکھا گیا۔

پروٹین کی اس قسم کے اجتماع کو الزائمر امراض کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔

تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ معدے میں موجود مخصوص بیکٹریا ایسی تبدیلیوں کو متحرک کرتے ہیں جو ورم کا باعث بنتی ہیں۔

اس ورم کی شدت تو معمولی ہوتی ہے مگر یہ دائمی ہوتا ہے جس سے اندرونی طور پر نقصان پہنچتا ہے جو بتدریج جسمانی رکاوٹوں کی حساسیت کو متاثر کرتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ معدے کی صحت متاثر ہونے سے خون میں ورم کا باعث بننے والے مالیکیولز اور زہریلے مادے کی سطح بڑھتی ہے جبکہ دماغ اور خون کے درمیان موجود رکاوٹ متاثر ہوتی ہے، جس سے دماغی ورم متحرک ہوتا ہے اور دماغی تنزلی کا خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ الزائمر امراض کے شکار افراد معدے کے ورم کے شکار ہوتے ہیں اور ہم نے یہ بھی دریافت کیا کہ معدے کے ورم کے شکار افراد کے دماغ میں ایمیلوئیڈ پروٹین کا اجتماع بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اب محققین کی جانب سے چوہوں پر تحقیق کرکے یہ دیکھا جائے گا کہ غذائی تبدیلیاں کس حد تک ورم میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

واضح رہے کہ الزائمر وہ مرض ہے جس کا ابھی تک کوئی مؤثر علاج دستیاب نہیں اور اس کی وجوہات کے بارے میں بھی ماہرین اب تک کچھ زیادہ نہیں جان سکے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :