بھٹہ مزدور خواتین اور بچوں کےطبی مسائل؛ ماؤں اور بچوں کی بڑھتی شرح اموات، وجوہات اور تدارک

اسلام آباد کے نواحی علاقے میں اینٹوں کے بھٹے کے درمیان ، کچے گھر کا کچا آنگن تھا__فوٹو: جیو نیوز
اسلام آباد کے نواحی علاقے میں اینٹوں کے بھٹے کے درمیان ، کچے گھر کا کچا آنگن تھا__فوٹو: جیو نیوز

فرزانہ کو شادی کے دو سال بعد اولاد کی خوشی ملنے کو تھی ، انتظا ر کا ایک ایک دن بھاری ہونے لگا تھا  تاہم خوشی اس وقت ماتم میں بدل گئی جب دوران زچگی اس کا پہلا بیٹا موت کے منہ میں چلا گیا۔

ڈاکٹر تک رسائی تھی نہ اسپتال تک، اسلام آباد کے نواحی علاقے میں اینٹوں کے بھٹے کے درمیان ، کچے گھر کا کچا آنگن تھا اور وہ ماں اپنی تکلیف کا طویل سفر بھلا کر اس غم میں مبتلا تھی کہ اس کا پہلا بچہ جس نے آنکھ کھول کر دنیا دیکھی تک نہ تھی ، اتنی جلدی آنکھیں موند گیا۔

وجہ کیا بنی اسے کون بتاتا ، وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر گئی۔

اگلے سال پھر اولاد کی خوشی کی امید تھی، حالات اس بار بھی ویسے ہی تھے، نہ کبھی اسپتال میں ماہانہ چیک اپ ہوا ،نہ ڈیلیوری کے وقت اسپتال پہنچنا نصیب میں تھا۔ محلے کی دائی بلائی گئی ، دوسرے بیٹے نے جنم لیا تو گویا خاندان بھر کی روکھی زندگیوں میں رنگ بھر گئے۔ ابھی بیٹے کا نام بھی نہ رکھ پائے تھے کہ اگلے روز اچانک پتہ چلا کہ لخت جگر کی سانس کی ڈور ٹوٹ چکی ہے۔

دکھ قیامت کا تھا لیکن ایک بار پھر نو مولود بچے کی موت کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دی گئی۔ اسے بس یہ پتہ تھا کہ پیدائش کے وقت اس کے بچے کا وزن بہت کم تھا اور بہت کمزور تھا ۔

وقت کا پہیہ رفتار پکڑتا رہا ، بہت دعائیں کیں ، منتیں مرادیں مانگیں ، تیسرے سال بچے کی آمد کی خوشخبری ملی۔ غربت نے تو کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی  لیکن قدرت مہربان ہوگئی ، اب کی بار دنیا میں آنے والا بچہ زندگی کی نوید لے کر آیا تھا، اس کے بعد فرزانہ کے ہاں چار بچوں کی ولادت ہوئی۔

فرزانہ قرض میں جکڑے شوہر کےساتھ اینٹیں بنانے میں برابر کی شریک تھی ۔ کئی کئی گھنٹے کام کے دوران وہ اکثر بھول جاتی کہ اس کی کوکھ میں ایک زندگی جنم لینے کو تیار ہے ۔ دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تھا ، ان حالات میں اس کی صحت ترجیح کیسے بن سکتی تھی۔

'طبی سہولیات کافقدان زچگی کے دوران کبھی ماں کی جان لیتا ہے تو کبھی نوزائیدہ بچوں کی'

یہ کہانی صرف فرزانہ کی ہی نہیں بلکہ بھٹہ مزدوری کرنے والی ان تمام خواتین کی ہے جو نسل درنسل قرض میں جکڑے خاندانوں کو اس گورکھ دھندے سے نکالنے کے لیے بھٹے کی بھٹی میں دہک رہی ہیں ۔ چھ ماہ پہلے اسی محلے کی ایک خاتون زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث کچے فرش پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔ طبی سہولیات کافقدان زچگی کے دوران کبھی ماں کی جان لیتا ہے تو کبھی نوزائیدہ بچوں کی ، لیکن نہ کوئی اعداد وشمار سامنے آسکے اور نہ ہی کوئی خبر کبھی حکمرانوں کی توجہ طلب کرسکی ۔

پاکستا ن میں اینٹوں کے تقریباً 20 ہزار بھٹے موجود ہیں ، جن کی زیادہ تر تعداد سندھ اور پنجاب میں ہے ، تاہم وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں بھی بھٹے موجود ہیں اور یہاں خواتین اور چھوٹے بچوں سمیت ہزاروں مزدور مٹی گارے سے اپنے گھر کا چولھا جلاتے ہیں ، کہیں نسل در نسل غلامی بھی ہے ۔

بھٹہ پر اینٹیں بنانے والی مزدور خواتین کا کہنا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کئی کئی گھنٹوں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اینٹیں بنانا پڑتی ہیں ۔ اجرت کم ملتی ہے تو خوراک اور ضروری فوڈ سپلیمنٹس جیسے فولاد یا آئرن کی ادویات ان کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں۔ بچوں کی پیدائش کے ایک یا دو ہفتے بعد ہی بھٹہ مزدور مائیں نومولود بچوں کو گھر پرچھو ڑ کر کام پرجانے پر مجبور ہیں۔ نتیجتاً ان بچوں کو ماں کا دودھ بھی نصیب نہیں ہوتا جس سے ان کی جسمانی اور ذہنی گروتھ نہیں ہوپاتی ۔غذائی قلت کا شکار ان بچوں کا بچپن بیماریوں سے لڑنے میں گزر جاتا ہے ۔ ماں باپ انتہائی تشویشناک حالت پر اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں تو ایک بار پھر مالک سے قرض لیتے ہیں اور یوں یہ سلسلسہ چلتا رہتا ہے ۔

زچگی کے دوران شرح اموات ، اور اقوام متحدہ کے اہداف:

پاکستان میں ہر ایک لاکھ حاملہ خواتین میں سے 186 زچگی کے دوران پیچیدگیوں کا شکار ہو کرموت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے ہدف میں عالمی سطح پر 2030 تک حاملہ ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ میں ستر خواتین تک مقرر کیا گیا ہے ۔

نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات، غذائی قلت کا شکار اسٹنٹنگ بچے اور اقوام متحدہ کے اہداف :

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونی سیف کے مطابق پاکستا ن میں 1 کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ۔

فوٹو: جیو نیوز
فوٹو: جیو نیوز

وولڈ بینک نے دسمبر 2023 کی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستا ن میں 40 فیصد بچے اسٹنڈ (غذائی قلت کا شکار ) ہیں ۔ پارلیمانی ٹاسک فورس برائے ایس ڈی جیز کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق غذائی قلت کا شکار بچے ملک کی آبادی کا 42 فیصد ہیں ۔

عالمی ادارہ صحت نے اسٹنڈ بچوں کی تعریف کچھ یوں کی ہے:

ایسے بچے جو غذائی قلت کے باعث اپنی عمر اور قد کے لحاظ سے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہوں ، ان بچوں میں شرح اموات کا رسک بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیت تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں ۔

سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر 1 ہزار نوزائیدہ بچوں میں 41 پیدائش کے بعد مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ یہ شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے  جب کہ پانچ سال سے کم عمر ہر 1 ہزار بچوں میں 67 فوت ہو جاتے ہیں ۔

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ اہداف میں ہر ہزار بچوں میں شرح اموات کم کر کے 12 تک لانا ہے جس کے لیے پاکستان کو سالانہ 11 اعشاریہ 6 کی شر ح سے نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پر قابو پانا ہوگا ۔

زچہ وبچہ میں شرح اموات کی بنیادی وجوہات :

پبلک ہیلتھ اسپشلسٹ ڈاکٹر جواد افضل کیانی نے بتایا کہ نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پر قابو پانے کے لیے ماؤں کا صحت مند ہونا ضروری ہے  کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند بچے کو جنم دیتی ہے ۔حمل کے پہلے تین ماہ کے دوران اگر ماں غذائی قلت کا شکار ہو گی یا اسے آئرن اور فولک ایسڈ ادویات دستیاب نہیں ہوں گی تو پیدا ہونے والے بچے میں مختلف مختلف قسم کے نقائص پیدا ہوسکتے ہیں جن میں دل ، دماغ ، نروس سسٹم ، گردے اورپھیپھڑوں کی افزائش نہ ہونا شامل ہیں ۔

زچگی کے دوران شرح اموات کی بڑ ی وجوہات میں ماں میں خون کی کمی ، یعنی انیمیا ، ہائی بلڈ پریشیر ، غذائیت قلت ، ڈپریشن ، اور دیہی علاقوں میں غیر تربیت یافتہ عملہ ہے جو ان پیچیدگیوں کو دور کرنے کا اہل ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ایمرجنسی سروس دستیاب ہوتی ہے ۔

دیہی علاقوں میں عموماً خواتین کی ڈیلیوری کے لیے استپال کی بجائے گھروں کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ ان کے لیے تربیت یافتہ برتھ ایٹنڈنٹس یا عملے کا فقدان ہے ۔ گلی محلے کی یہی غیر تربیت یافتہ دائیاں اکثر نومولود بچوں میں نیو نیٹل ٹیٹنیس کا مرض لاحق کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ وہ حفظان صحت کے اصولوں سے لاعلم ہوتی ہیں ۔ نومولود بچوں میں نیو نیٹیل ٹیٹنس یعنی این این ٹی موت کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔

نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دیہی علاقوں میں خواتین کا ماہانہ چیک اپ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جس سے بعض بچے قبل از وقت پیدائش یعنی پری میچور ، 36 ہفتوں سے قبل یعنی پری ٹرم اور 42 ہفتوں کے بعد یعنی پوسٹ ٹرم میں جنم لیتے ہیں  اور پیدایش کے کچھ ہی عرصہ بعد دم توڑ دیتے ہیں ۔

ایس ڈی پی آئی کا فریم ورک برائے سماجی ،معاشی اور ماحولیاتی بحالی :

پاکستان کے معروف تحقیقاتی ادارےا سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی )نے اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور ا انٹر نینشل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ‘Socially and Environmentally Compliant Brick Kiln Framework’ (SECBKF) کے نام سے سماجی اور ماحولیات کے مطابق بھٹہ مزدورں کے لیے فریم ورک تشکیل دیا ہے جس پر عمل درآمد سے لیبر قوانین لاگو کیے جاسکیں گے ۔

اس فریم ورک کے تحت ایس ڈی جیزکے اہداف نمبر 8 ، ایس جی ڈی 12 ، اور ایس جی ڈی 13 مزدوں کے لیے کام کا ماحول بہتر بنایا جائے گا۔ مزدوروں کو صحت تک رسائی کے لیے کوششیں کی جاسکیں گی ۔

پاکستان میں بھٹہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ، تاہم نہ تو بھٹہ مزدورں کی کوئی یونین بن سکی اور نہ ہی بھٹہ مزدوروں اور مالکان کے درمیان کسی قسم کے ڈائیلاگ کی فضا قائم ہو سکی ۔تاہم پہلی مرتبہ فریم ورک کے زریعے پہلی مرتبہ یہ کوشیش کی جارہی کہ بھٹہ مالکان اور مزدور روایتی غلامی کی سوچ سے آزاد ہو کر اپنے حقوق پر بات کر سکیں ۔ 

SECBKF جس میں ان کے لیے تعلیم ، صحت ، سوشل سکیورٹی نیٹ ورک ، پینشن ، ای او بی آئی میں رجسٹریشن اور دیگر مراعات شامل ہیں، جو پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اپنے لیبرز کو دینے کا عہد کرتا ہے ۔

سفارشات :

ڈاکٹر جواد کا کہنا تھا کہ ماؤں اور بچوں کی زندگیاں بچانے اور شرح اموات پر قابو پانے کے لیے سرکاری نجی اور بین الاقوامی سطح پر کوششیں جاری ہیں تاہم دیہی علاقوں میں ہیلتھ ورکرز کو تربیت فراہم کرنا ، خواتین کو اسپتالوں تک رسائی ، پیدائش سے قبل اور بعد میں زچہ و بچہ کی مانیٹرنگ اور صحت مند ماحول فراہم کرنا بڑے چیلنجز ہیں ۔

بھٹہ مزدوروں کی اجرت میں بہتری سے وہ اپنی اور اپنے خاندان کی بنیادی غذائی ضروریات پوری کریں تاکہ پاکستان کی آئندہ نسلیں لاغر ، معذور اور بیمار نہ ہوں اور پاکستان بھی ایس ڈی جیز کے اہداف حاصل کر کے دنیا میں اپنی رینکنگ بہتر بنا سکے ۔

SECBKF کے تحت  امید افزا بات یہ ہے کہ فریم ورک ماؤں اور بچوں کو صحت جیسی بنیادی ضرورت تک رسائی کی کوشیش کی جارہی ہے  تاکہ ناصرف 2030 تک پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز کے اہداف پورے کر سکے بلکہ ماؤں اور بچوں کی صحت مند زندگیوں سے ان کے معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لائی جاسکے۔

مزید خبریں :