24 جون ، 2024
کراچی سٹی کونسل کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی کی گئی جس سے اجلاس مچھلی بازار بن گیا۔
میئر ڈائس کےسامنے حکومت اور اپوزیشن ارکان کی ایک دوسرے سے تلخ کلامی اور تکرار بھی ہوئی، اپوزیشن کی جانب سے جعلی بجٹ نامنظور کے نعرے لگائے گئے اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑ دی گئیں۔
سٹی کونسل میں ہنگامہ آرائی کے دوران آئندہ مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔
دوسری جانب سٹی کونسل میں اپوزیشن نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بجٹ پر دس نکاتی وائٹ پیپر جاری کردیا۔
وائٹ پیپر کے مطابق بلدیہ عظمی کراچی کابجٹ مکمل طورپراخراجاتی بنیاد پربنایا گیا ہے اور بجٹ میں ریونیو کےتمام اکاؤنٹس کا تخمینہ انتہائی کم لگایا گیاہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق کراچی کی246 یونین کمیٹیز کے لیے ایک بھی نئی اسکیم کو شامل نہیں کیاگیا، منتخب چیئرمین و کونسل اراکین کے لیےکسی قسم کا ترقیاتی فنڈ نہیں رکھاگیا۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ صوبائی، ورلڈ بینک قرضوں کےعلاوہ بلدیہ کوئی خاطرخواہ ترقیاتی فنڈ رکھنے میں ناکام ہوگئی ہے، بلدیہ کے بجٹ کا 82 فیصد حصہ قرضوں اور گرانٹس کےذریعے بنایا گیا ہے۔
وائٹ پیپر کے مطابق چارجڈ پارکنگ کی مد میں سالانہ آمدنی صرف 15.9 کروڑ روپے ظاہرکی گئی ہے جبکہ شہر بھر میں 83 پارکنگ سائٹ موجود ہیں، فی سائٹ اوسط یومیہ آمدنی محض 6 ہزار روپے بن رہی ہے۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ اشتہارات کی مد میں اس سال آمدنی میں محض ایک لاکھ روپےکا اضافہ ظاہرکیا گیا ہے جبکہ شہر میں 106 شاہراہیں بلدیہ کے ماتحت ہیں، ان تمام شاہراہوں پر اشتہارات لگائے جاتے ہیں، اس کی کل آمدن انتہائی کم ظاہر کی جارہی ہے۔
اپوزیشن کے وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ہاکس بے پر 99 ہٹ ہیں، شہر بھر میں11 پٹرول پمپ موجود ہیں، بجٹ میں اس کی کوئی واضح تفصیل نہیں۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ کے الیکٹرک سے ایک ارب 85کروڑ روپے بلدیہ نےگزشتہ سال وصول کرنےتھے، اس سال بھی اس رقم کو برقرار رکھا گیا ہے، مرتضی وہاب جواب دیں کےالیکٹرک سے اتنی بڑی رقم کیوں وصول نہیں کی گئی۔
وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ کراچی میڈیکل کالج کے لیےایک مرتبہ پھر وہی 50 کروڑ کی روایتی گرانٹ رکھی گئی ہے، رواں سال اس کالج کویونیورسٹی بننا ہے، اتنےکم بجٹ سے یہ کام ممکن نہیں۔