12 اگست ، 2024
اب بات گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کو عہدے سے ہٹانے کی، چند روز پہلے پیپلزپارٹی کے وفد نے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی تھی جس میں گورنر سندھ کو ہٹائے جانے کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا تھا۔
اسحاق ڈار صاحب کے لیے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اگروفاقی حکومت میں نواز شریف کسی پر، بالشمول اپنے بھائی وزیراعظم شہباز شریف، پراندھا اعتماد کرسکتےہیں تو وہ صرف اور صرف اسحاق ڈارہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ (ن) کے رہنما بشیر میمن کو گورنر سندھ بنائے جانے کا تعلق ہے تو ان کا نام بلاوجہ اچھالا گیا۔ امکان یہ ہے کہ بشیر میمن کی خدمات کے احترام میں انہیں وزیراعظم کا خصوصی معاون بنایا جائے یا کوئی اور عہدہ سونپا جائے تاہم یہ سو فی صد طے ہے کہ بشیر میمن کو گورنر سندھ نہیں بنایا جائےگا۔
وجہ یہ ہے کہ بشیر میمن پیپلزپارٹی کو قابل قبول نہیں۔یہ بات پیپلزپارٹی نے اسی وقت مسلم لیگ (ن) کو بتا دی تھی جب اتحادی حکومت قائم کرتے ہوئے گورنری سے متعلق فیصلے لیے گئے تھے۔ پیپلزپارٹی کے وفد نے واضح کیا تھا کہ سندھ میں گورنری تو دور کی بات بشیر میمن کو کسی بھی اہم عہدے پر قبول نہیں کیا جائے گا۔
پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہےکہ جس طرح پیپلزپارٹی کی سینئر ترین قیادت کے خلاف بے بنیاد الزامات کےتحت وچ ہنٹ بشیر میمن نے کی، وہ کسی صورت قابل معافی نہیں۔
لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ بشیر میمن کو پارٹی کی جانب سے اس بارے میں کوئی اطلاع دی ہی نہیں گئی تھی کہ انہیں گورنری سونپی جارہی ہے، یہ کسی نے بے پر کی اڑائی تھی۔
سندھ سے وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے اہم عہدیدار موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ عین ممکن ہے کہ بشیر میمن کو کوئی عہدہ دیا جائے جو اسپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر بھی ہوسکتا ہے۔
گورنر ٹیسوری کو عہدے سے ہٹائے جانے سے متعلق اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) حکومت کی ایک سینئر ترین شخصیت نے دو بار ٹیلی فون پر تصدیق کی کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ گورنرٹیسوری کو عہدے سے چند روز میں ہٹایا جارہا ہے۔ دن یا تاریخ کااعلان نئے گورنر کے نام پر مشاورت مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا کیونکہ ابھی اس سلسلے میں ایک اہم ملاقات ہونا باقی ہے۔
اس ملاقات میں دو چیزیں طے ہونی ہیں، گورنر مسلم لیگ (ن) کا ہو یا پیپلزپارٹی کا اور وہ ہوگا کون؟ یعنی بات پرانے معاہدے کے تحت آگے بڑھے یا نئے کے تحت، دونوں صورتوں میں حتمی اجازت مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف دیں گے۔
اس نمائندے کو پیپلزپارٹی کی ایک اعلٰی شخصیت نے بتایا کہ حکومت سازی کے وقت کیے گئے معاہدے کے تحت سندھ میں گورنر مسلم لیگ (ن) ہی کا ہونا تھا۔ تاہم ابھی نامزدگی نہیں ہوئی اس لیے کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر پہلے سے طے معاملات میں تبدیلی کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق طے شدہ معاہدے کے تحت پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اپنی مرضی کا گورنرسردار سلیم حیدر خان کی صورت میں لگا تو لیا تھا مگر جو مقصد تھا اس میں تاحال کامیابی نہیں ملی۔
سردار سلیم حیدرخان منکسرالمزاج ہیں، سادہ لوح ہیں، پرانے جیالے ہیں مگر وہ صوبے میں پیپلزپارٹی کو متحرک کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ قمرزمان کائرہ جیسی دبنگ انداز میں بات کرنے والی شخصیت ہوتی یا ایسا جیالا جو پیپلزپارٹی کا سہانا ماضی، حال اور مستقبل میں بدل سکتا تو بات اور تھی،اب یہ وہ عہدہ بن گیا ہے جو سیاسی بوجھ میں تبدیل ہوسکتا ہے کیونکہ گورنری ہونے کے باوجود اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں متحرک نہ ہوئی تو کل کو کہنے کے لیے بھی کچھ نہ ہوگا کہ اختیار ملتا تو پارٹی میں نئی روح ڈالی جاسکتی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ ایسے میں پیپلزپارٹی یہ آپشن بھی رکھ رہی ہے کہ اگر سندھ میں گورنر پیپلزپارٹی کا قبول کرلیا جائے تو پنجاب کی گورنری واپس مسلم لیگ (ن) کو سونپی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی پنجاب کےسابق گورنر بلیغ الرحمان موجودہ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحق ڈار کے انتہائی قریب ہیں اور انہیں شریف برادران کا بہت زیادہ اعتماد حاصل ہے، انہیں ہٹا کر سلیم حیدرخان کو لایا گیا تھا۔ اب اگر مسلم لیگ (ن) کو پنجاب کی گورنری واپس دی جائے تو سندھ میں یہ منصب لینا کہیں بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔
سندھ میں گورنر پیپلزپارٹی کا ہو یا مسلم لیگ (ن) کا یہ طے ہے کہ ایم کیوایم دونوں صورتوں میں گھاٹے ہی میں رہے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ آخر کامران خان ٹیسوری کے خلاف کرپشن، اقربا پروری یا کسی اور نوعیت کے الزامات نہیں تو انہیں ہٹانے کی بنیاد کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ اتحادی حکومت کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں اور سیاست کو سیاسی انداز سے ہی دیکھا جانا چاہیے، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
ان رہنما کے بقول اتحادی حکومت کو فیصلے ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہوئے کرنے ہوتے ہیں، جس طرح پنجاب میں پیپلزپارٹی کو ایڈجسٹ کیا گیا، اسی طرح اہم اتحادی ہونے کے ناطے سندھ میں بھی مسلم لیگ (ن) کو ایڈجسٹ کیا جانا ہے۔ یہ چارٹر آف ڈیموکریسی ہے جس کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو آگے بڑھنا ہے۔
تو کیا کامران خان ٹیسوری کے بطور گورنر سندھ اقتدار کا سورج اگست میں غروب ہو جائےگا؟ اگر کوئی کرشمہ نہ ہو تو سو فی صد ایسا ہی ہے، وہ کرشمہ کیا ہے، اس کا ذکر پھر سہی۔
یہ الگ بات ہے کہ نکالا گیا تو ٹیسوری صاحب بھی میاں نواز شریف کی طرح یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ مجھے کیوں نکالا؟ مگر یہ بھی طے ہے کہ جس طرح مسلم لیگ (ن) کے قائد کو پھر اقتدار ملا، اپنے فلاحی اقدامات کے سبب جلد یا بدیر کامران ٹیسوری پھر کسی اہم عہدے پر براجمان ہوں تو باعث حیرت نہیں ہوگا۔
جاری ہے۔۔۔