Time 19 اگست ، 2024
دنیا

بنگلادیش: احتجاج کے دوران چوتھی منزل پر لٹکا شخص پولیس کی 6 گولیاں لگنے کے باوجود زندہ بچ گیا

ڈھاکا: بنگلادیش میں گزشتہ دنوں ہونے والے حکومت مخالف احتجاج کے دوران عمارت کی چوتھی منزل پر لٹکا شخص پولیس کی 6 گولیاں لگنے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔

بنگلادیشی اخبار کے مطابق 23 جولائی کو بنگلادیش میں انٹرنیٹ سروس  بحال ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک شخص کو  زیر تعمیر عمارت پر لٹکا دیکھا جاسکتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد دو پولیس اہلکار اس زیر تعمیر عمارت میں آتے ہیں جس کے بعد گولیاں چلنے کی آواز آتی ہے، اس دوران پولیس اہلکار پر عمارت سے لٹکے شخص کا نشانہ لیتے نظر آتے ہیں۔

اس ویڈیو میں نظر آنے والے مناظر سے لگتا ہے کہ عمارت سے لٹکا ہوا شخص گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا ہے۔

مقامی صحافی کی جانب سے 24 جولائی کو اس زیر تعمیر عمارت کا دورہ کرنے پر وہاں خون کے دھبے بھی نظر آتے ہیں، تاہم ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔

تاہم اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا شخص معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔

بنگلادیش: احتجاج کے دوران چوتھی منزل پر لٹکا شخص پولیس کی 6 گولیاں لگنے کے باوجود زندہ بچ گیا
ویڈیو میں نظر آنے والا عامر نامی شخص معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا— فوٹو: اسکرین گریب/ ڈیلی اسٹار

بنگلادیشی اخبار کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کا نام عامر ہے جس نے واقعے کے حوالے سے بتایا کہ وہ نماز پڑھ کر  گھر جارہا تھا کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کردی جس کی وجہ وہ وہاں سے بھاگا اور ایک زیر تعمیر عمارت کی چوتھی منزل پر  چھپ گیا۔

عامر نے کہا کہ ایک موقع پولیس اہلکار عمارت میں داخل ہوگئے جس کی وجہ وہ عمارت کی دیوار کے ساتھ لٹک گیا تاہم کچھ دیر بعد 2 پولیس اہلکاروں نے اسے وہاں دیکھ لیا جس پر ایک پولیس اہلکار نے اسے کہا کہ وہ عمارت سے کود جائے ورنہ اسے گولی ماردی جائے گی۔

اس کے بعد پولیس کی جانب سے عامر پر گولیاں چلائی گئیں جن میں سے 6 گولیاں اس کی ٹانگوں پر لگیں، تاہم عامر اس وقت تک ایک راڈ کے سہارے لٹکا رہا جب تک پولیس وہاں سے چلی نہیں گئی، اس کے بعد وہ تیسری منزل پر آگرا۔

عامر نے بتایا کہ اس نے مدد کے لیے چیخ و پکار کی لیکن فائرنگ کی آواز میں اس کی آواز کسی نے نہیں سنی۔

عامر نے کہا کہ ’ایک موقع پر میں نے ہمت ہاردی تھی لیکن میرے بوڑھے باپ اور میری بہن، جس کی شادی کے لیے میں رقم جمع کررہا تھا، کے خیال نے مجھے زندہ رکھا‘۔

کم و بیش 3 گھنٹے بعد عمارت میں داخل ہونے والے ایک طالب علم نے عامر کو دیکھا، اس وقت تک عامر کاکافی خون بہہ چکا تھا، قریبی اسپتال کے 2 ڈاکٹر بھی جو اس علاقے میں ہی موجودتھے عامر  کی مدد کو پہنچے جنہوں نے اس کے زخموں سے بہتے خون کو روکنے کی کوشش کی۔

عامر نے بتایا کہ وہ مجھے یہ کہتے رہے کہ ہم تمہیں مرنے نہیں دیں، بس اپنی آنکھیں کھلی رکھنا۔

عامر کو اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے ابتدائی طبی دینے کے بعد ڈھاکا میڈکل کالج منتقل کردیا گیا جہاں 3 دن تک اسے زیر علاج رکھنے کے بعد گھر بھیج دیا گیا کیونکہ اسپتال میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی جن کی حالت خطرے میں تھی۔

ڈاکٹروں کے مطابق اگر عامر کو اسپتال پہنچانے میں 5 سے 10 منٹ کی بھی تاخیر ہوجاتی تو زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی جان جاسکتی تھی۔

عامر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہم نے سنا کہ پولیس ہمیں ڈھونڈ رہی ہے، وہ ان لوگوں کو گرفتار کررہے تھے جن کی ٹانگوں میں گولیاں لگی تھیں، اس وجہ سے ہم خاموش رہے، صحافی بھی ہمیں ڈھونڈ رہے تھے لیکن ہم نے تب تک کسی سے بات نہیں کی جب تک حسینہ واجد کی حکومت ختم نہیں ہوگئی۔

عامر کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور وہ تیزی سے صحت یاب ہورہا ہے، تاہم اسے ابھی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے عامر کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں وقت لگ سکتا ہے۔

مزید خبریں :