29 اگست ، 2024
بلوچستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے حالیہ واقعات کے بعد فضا اب بھی سوگوار ہے جب کہ دوسری جانب مستقبل میں ان واقعات کی روک تھام کےحوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے روایتی بلند بانگ دعوے سامنے آرہے ہیں ۔
ان واقعات نے بلوچستان میں حکومتی کارکردگی اور خاص طور پر شاہراہوں پرکیے گئے حفاظتی اقدامات پر سوالات اٹھادیے ہیں، 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب موسیٰ خیل، قلات، بولان، قلات اور لسبیلہ سمیت مختلف اضلا ع میں تخریبی کارروائیوں میں 55 افراد جاں بحق ہوئے، زیادہ تر واقعات قومی شاہراہوں پر رونماہوئے تھے۔
حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن ان علاقوں میں واقعات کے رونما ہونے سے لگتا یہی ہے کہ ان میں ملوث عناصر کو معصوم اور نہتے افراد کے قتل و غارت کی منصوبہ بندی اورپھر اس پرعملدرآمد کی جیسے کھلی چھوٹ ملی ہو، خاص طور پرسانحہ موسیٰ خیل نے ثابت کیا کہ حکومتی دعوؤں کے برعکس بلوچستان میں ہائی ویز کتنے غیر محفوظ ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا بیان
اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ 4000کلومیٹر ہماری سڑکیں ہیں ان میں سے وہ کسی ایک کو ڈھونڈتے ہیں وہ ہماری سوسائٹی کےاندر رہ رہے ہیں، وہ ریکی کرتے ہیں ایک جگہ دیکھتے ہیں وہاں آدھے گھنٹے کیلئے آتے ہیں اور 100 میٹر کے فاصلے پر بس سے اتارکرلوگوں کو مارتےہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔
شواہد کے مطابق بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے حالیہ واقعات ایک خاص وقت اور موقع پر رونما ہوئے مگر اس حوالے سے کوئی پیش بندی نہیں کی گئی تھی اور اب ان واقعات کےبعد وہی روایتی بیانات اور دعووے سامنے آرہے ہیں۔
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا بیان
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی عوام کو پتا ہو کہ وفاقی وزیرداخلہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی بیک پر کھڑے ہیں جو یہ فیصلہ کریں گے ان کی بیک پر کھڑے ہیں اور ان کو سپورٹ کریں گے۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہرنئی نہیں ہے، اس سے قبل رواں ماہ مستونگ کے علاقے میں مسلح افراد کی جانب سے ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکرعلی کی شہادت کے واقعہ کے علاوہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آچکے تھے۔
سکیورٹی ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کیلئے مستقبل میں خاطر خواہ اقدامات اور ٹھوس حکمت عملی مرتب کی جائے تاکہ قومی شاہراہوں پر سفر کو محفوظ بنایا جا سکے۔