18 فروری ، 2013
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…ماں کا دودھ نہ پینے والے نو زائیدہ بچوں کی زندگی خطرے میں رہتی ہے، ہر گھنٹے میں95بچے اور ہر سال 8لاکھ 30 ہزار بچوں کی جان بچ سکتی ہے اگر بچے کی پیدائش کے پہلے گھنٹے میں انہیں ماں اپنا دودھ پلائے۔ تھنک ٹینک”Save the Children“ نے ایک فلاحی ادارے کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر پیدائش کے پہلے گھنٹے جسے ”پاور آور“ کہا جاتا ہے میں بچے کی پہلی مائع غذا ماں کا دودھ ہوتو اس سے بچے کا مدافعتی نظام کام کرنا شروع کردیتا ہے اور اس سے بچے کے زندہ رہنے کے تین گنا امکاناتبڑھ جاتے ہیں۔ اگر مائیں اگلے چھ ماہ تک تسلسل سے اپنا دودھ پلائیں تو ترقی پزیر ممالک میں نمونیا اوراسہال جیسی مہلک بیماریوں سے بچوں کی ہلاکتوں میں 15گنا کمی ہوسکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر ماوٴں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ بچوں کو اپنادودھ پلائیں تو ہلاکتوں میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔ رپورٹ میں دودھ کی بوتل کو ”سگریٹ “ سے تشبیہ دیتے ہوئے بچوں کی ہلاکت کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے اور ماوٴں کے دودھ کو بہترین غذا قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں برطانیہ ویورپی ممالک سمیت ترقی پزیر ممالک کو اس حوالے سے خبردار کیا گیاہے۔ اس سے قبل برطانوی صحت حکام نے پہلے چھ ماہ تک بچوں کیلئے ماں کے دودھ کو خصوصی طور تجویز کیا تھا، جب بچہ ٹھوس غذا پر چلا جائے تو پھر ماوٴں کو اس سلسلے حوالے سے ان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنا دودھ بچے کو پلائیں یا نہیں۔لیکن تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر گھنٹے میں دنیا بھر میں95 بچوں کو ماوٴں کادودھ بچا سکتا ہے۔ عالمی سطح پر اور بالخصوص مشرقی ایشیاء اور افریقی ممالک ایتھوپیا اور نائجیریا میں ماوٴں کے اپنے بچوں کو دودھ پلانے میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ماوٴں کے دودھ کی متبادل غذا بنانے والی صنعت روز بروزترقی کر رہی ہے،صرف ایشیاء میں شیر خوار بچوں کی غذا بنانے والی صنعت16ارب پونڈ سے تجاوز کرچکی ہے اور2015ء میں اس میں31فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ فلاحی ادارے نے گیلپ کے ساتھ مل کر پاکستان میں اس سلسلے میں سروے کیا جس میں 20ہیلتھ ورکزر کا کہنا تھا کہ بچوں کا دودھ اور دیگر غذائیں فراہم کرنے والی کمپنیاں انہیں مختلف برانڈزکے تحائف دیتی ہیں۔ گیارہ فی صد ماوٴں کا کہنا تھا کہ انہوں نے بچوں کی غذاوٴں کے ساتھ فراہم کیا جانے والا متعلقہ مواد پڑھا تھا۔ پاکستان میں 24سو ماوٴں اور12سو ہیلتھ ورکرز نے اس سروے میں حصہ لیا۔