Time 19 اکتوبر ، 2024
بلاگ

سات اکتوبر آغاز تھا نہ یحییٰ سنوار کی شہادت اختتام!

ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں لوگوں کی یادداشت کمزور ہو چکی ہےاور وہ چند سال پہلے ہونے والے واقعات کو بھول جاتے ہیں۔

 جن لوگوں کی یادداشت کمزور ہے، انہیں اسے تازہ کرنے کی ضرورت ہے، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ دنیا 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوئی تھی، 2023 میں حماس کا اسرائیل پر حملہ کوئی تنہا واقعہ نہیں تھا،  ہمیں اسے اس کے پس منظر اور سیاق و سباق میں دیکھنا ہوگا، یہ اسرائیلی ظلم، بربریت اور قبضے کے خلاف ردعمل تھا اور اس  ردعمل کو سمجھنے کے لیے اصل عمل اوران کارروائیوں کو سمجھنا ضروری ہے جنہوں نے اسے جنم دیا۔

‎7 اکتوبر 2023 سے پہلے بھی غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہا جاتا تھا جہاں ایک ملین افراد قید تھے، ایک طرف سمندر تھا اور دو طرف اسرائیل جبکہ اسرائیل نے مصر سے ملنے والی سرحد کو بھی بند کر رکھا تھا،  وہاں کے بچوں، نوجوانوں، عورتوں، اور بزرگوں کو انسانی حقوق ،صحت کی بنیادی سہولیات اور زندگی گزارنے کی بنیادی آزادیوں سے محروم رکھا گیا تھا۔

 حالات کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ غزہ کو پانی فراہم کرنے والی پائپ لائن بھی اسرائیل سے گزر کر آتی تھی بجلی فراہمی مرکز اسرائیل کے زیر قبضہ تھے جو اسرائیل نے 7 اکتوبر کے حملوں کے فوراً بعد بند کر دیں، جب آپ کا پینے کا پانی، طبی سامان، تعلیم کی سہولت، انٹرنیٹ  اور بجلی سب کچھ قابض ملک کے کنٹرول میں ہوں وہاں سے گزر کر آپ تک پہنچ رہا ہو تو آپ کس طرح عزت سے زندگی گزار سکتے ہیں؟

‎اپنی ہی زمین پر قیدی بن کر رہنا، غلامی کی زندگی گزارنا کون پسند کرتا ہے؟ روزانہ کا تشدد اور ذلت آمیز سلوک مغربی کنارے اور غزہ کے فلسطینیوں کے لیے عام بات تھی، یہ صرف غزہ اور مغربی کنارے میں ہی نہیں بلکہ اسرائیل کے اندرزیر قبضہ فلسطین میں بھی، جیسے کہ بیت اللحم اور یروشلم میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جا رہا تھا۔ 

حتیٰ کہ امریکہ نے ان کارروائیوں کی مخالفت کی لیکن یہ سلسلہ جاری رہا، آباد کار آتے، لوگوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکال دیتے، ان کا سامان باہر پھینک دیتے ، ان کے گھروں پر قبضہ کر لیتے اور فلسطینی کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار رہ جاتے اور دہائیاں دیتے۔

صرف فلسطینی ہی نہیں وہاں اسرائیلی بربریت اور ظلم کو رپورٹ کرنے والے صحافی بھی اسرائیلی سنسر شپ کا شکار تھے کئی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا امریکی صحافی شیریں ابو عقیلہ کا اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل اس کی صرف ایک مثال ہے۔

اک ایسی سرزمین جہاں دنیا بھر سے آبادکاروں کو آکر رہنے بسنے کا تو حق ہے مگر اس زمین کے اصل مالک وہاں نہ رہ سکیں،  apartheid ماحول میں الگ قطاروں اور گھنٹوں شناختی عمل سے گزرنے کی ذلت اٹھانی پڑتی ہو، جہاں آپ کے بچوں کو قابض فوج کب چاہے اٹھالے اور سزا سنا کر جیلوں میں ڈال دے،  آپ کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل میں زندگی گزارنی پڑے آپ بغاوت پر اتر آتے ہیں۔

بنیادی انسانی حقوق میں سب سے بڑا حق اپنے ملک اپنی زمین پر آزادی سے جینے کا حق ہے جسے قابض فوج نے چھین لیا تھا ایسے میں سب سے بڑا حق اپنے ظالم اور قابض سے مزاحمت ہے جسے دنیا میں ہرجگہ تسلیم کیاجاتا ہے۔

‎ایسے حالات میں، جب آپ ظلم اور قبضے کے درمیان گھرےہوتے ہیں، تو آپ کے دل میں فطری طور پر غصہ پیدا ہوتا ہے اور 7 اکتوبر 2023 اسی غصے کا اظہار تھا، نیا 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوا اور حماس کے اسرائیل پر حملے کو اس سارےمعاملے کا آغاز سمجھنا بے وقوفی اور دانستہ لاعلمی ہے۔ 

حماس کا حملہ ایک ردعمل تھا جب تک ہم اس کے سیاق و سباق اور پس منظر کو نہیں سمجھیں گے تب تک ہم اس کارروائی کو نہیں سمجھ سکتے جس نے یہ ردعمل پیدا کیا۔

امریکہ اور مغرب اپنی انسانی حقوق کی ٹھیکیداری اور خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہنے کا حق کھو چکے کیونکہ یہاں وہ ایک ظالم اور قابض کو سپورٹ کررہے ہیں۔

امریکہ اور مغربی ممالک کی تاویل سن کر ہنسی آئے گی ۔

یوکرین پر روسی قبضہ غلط ہے۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضہ درست ہے۔

یوکرین خود پر قبضہ کرنے والوں سے لڑنے کا حق رکھتا ہے اس کو امریکہ اور مغرب ہتھیار دیں گےجبکہ فلسطین میں قابض اسرائیل سے فلسطینیوں کو حقِ دفاع حاصل نہیں ، یہاں امریکہ اور مغربی ممالک قابض اور بدمعاش کو اسلحہ اور ہتھیار دے رہے ہیں، امریکہ اور مغرب اب دنیا کو کس منہ سے نصیحت کریں گے۔

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یحییٰ سنوار کی شہادت کے ساتھ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، ختم ہو جائے گا یا دفن ہو جائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، یہ معاملہ اس طرح ختم نہیں ہوگا،  لوگوں کے حقوق کو دباؤ، ظلم، خوف، بربریت اور ستم کے ذریعے چھینا نہیں جا سکتا۔

 ان کی زمین ان کی مٹی ان سے غصب نہیں کی جا سکتی اور انہیں محکوم بنا کر زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا یہ مسئلہ اس طرح حل نہیں ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔