14 نومبر ، 2024
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے عمرکوٹ میں ڈاکٹر شاہنواز قتل کیس میں اہم پیشرفت کی رپورٹ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش کردی۔
رپورٹ میں سابق ڈی آئی جی میرپورخاص جاوید جسکانی اور ایس ایس پی اسد چوہدری سمیت 10 اہلکاروں کو روپوش قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق روپوش اہلکاروں کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے گئے ہیں اور ان کی گرفتاری کیلئے دو ٹیمیں تشکیل دے کر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
اب تک اس کیس میں 7 پولیس اہلکاروں سمیت 17 افراد کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں جبکہ ملزمان کی فون کالز کے ریکارڈ کا تجزیہ ہونا باقی ہے، کیس کی مزید سماعت انسداد دہشتگردی عدالت میں 16 نومبر کو ہوگی۔
خیال رہے کہ 18ستمبر 2024 کی رات سندھڑی پولیس نے مبینہ مقابلے میں عمرکوٹ کے رہائشی ڈاکٹرشاہنواز کی ہلاکت کا دعوٰی کیا تھا۔
بعد ازاں میرپورخاص میں توہین مذہب کےمبینہ الزام میں گرفتار ڈاکٹر شاہنواز کے قتل کا مقدمہ سندھڑی تھانےمیں درج کیا گیا تھا جس میں قتل، انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔
مقدمے میں ایس ایچ او اور اہلکاروں سمیت 15 افراد شامل ہیں جبکہ سابق ڈی آئی جی جاوید جسکانی ، سابق ایس ایس پی میرپور خاص اسد چوہدری اور سابق ایس ایس پی عمرکوٹ آصف رضا بلوچ کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
26 ستمبر 2024 کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ سندھ کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس معاملے میں ملوث ہیں ان سب کےخلاف کارروائی ہوگی، ہمارے افسران اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف مقدمہ درج کروا رہے ہیں، اگر مقتول کی فیملی ایف آئی آر نہیں کراتی تو ریاست ایف آئی آر کٹوائے گی۔
27 ستمبر کو سندھ حکومت کی اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ڈاکٹر شاہنواز کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے انکشاف کے بعد ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپورخاص اور ایس ایس پی عمرکوٹ کو معطل کر دیا گیااور مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں شریک پولیس اہلکاروں سمیت دیگر 45 افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا تھا۔
11 اکتوبر کو سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے توہین مذہب کے الزام میں ڈاکٹر شاہنواز کے قتل پر سندھ حکومت کو رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ میرپورخاص اور عمرکوٹ کےایس ایس پیز اور ڈی آئی جی نے بھی ڈاکٹرکی گرفتاری سےانکارکیا تاہم بعد میں تینوں افسران نے مانا کہ ملزم کو کراچی سے گرفتار کیا۔
رپورٹ کے مطابق مقدمےکے بعد ایف آئی اے سے تکنیکی معاونت نہیں لی گئی جبکہ مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ 2 روزتک نہیں دی گئی اور ایم او چھٹی پرچلاگیا۔
رپورٹ میں ڈاکٹرشاہنواز قتل پرذمہ داروں کےتعین کیلئے جےآئی ٹی بنانے کابھی مطالبہ کیا گیا۔
14 اکتوبر کو سندھ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے کیلئے قبر کشائی کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس سلسلے میں پولیس سرجن نے ڈائریکٹر جنرل صحت کو قبر کشائی کیلئے خط لکھا جس کے بعد اگلے روز ہی ڈاکٹر شاہنواز کی قبر کشائی کرکے نمونے لیے گئے تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر شاہنواز کی 4 پسلیوں کے علاوہ کندھے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، لاش کا اگلا حصہ، چہرے اور سر کی جلد جلی ہوئی پائی گئی جبکہ دونوں ہاتھوں کے ناخن اور پیر بھی جزوی جلے ہوئے تھے۔
15ا کتوبر کو محکمہ داخلہ سندھ کی جانب سے رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھ کر ڈاکٹر شاہنواز کی ہلاکت کے معاملے پر ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج سے انکوائری کرانے کی درخواست کی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ حقائق اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے عدالتی تحقیقات ضروری ہیں۔
21 اکتوبر کو سندھ ہائی کورٹ میرپورخاص سرکٹ بینچ نے ڈاکٹر شاہنواز کیس کی سماعت کے موقع پر پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیےگئے ڈاکٹر شاہنواز کیس کی تحقیقات ایف آئی اے سےکرانےکا حکم دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے تحقیقات کی نگرانی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کرے گا۔