15 دسمبر ، 2024
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے فکر مند برطانوی خاتون نے اپنی آخری رسومات کے لیے ماحول دوست کفن بنا لیا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مغربی یارک شائر کی رہائشی ریچل کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتیں کہ اس زمین پر ان کا آخری عمل آلودگی پھیلانے والا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کم از کم چیزیں استعمال کرنے اور زیادہ سے زیادہ سے چیزیں ری سائیکل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
برطانیہ میں ہر سال وفات پانے والے افراد میں سے تقریباً 80 فیصد افراد کی لاشیں جلادی جاتی ہیں تاہم محولیات کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق ایک لاش کو جلانے کے نتیجے میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس لندن سے پیرس کی ریٹرن فلائٹ کے دوران پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے برابر ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق روایتی طریقے سے لاشوں کی تدفین بھی آلودگی کا باعث بن سکتی ہے، نان بایو ڈی گریڈ ایبل تابوت اکثر نقصان دہ کیمیکلز سے بنائے جاتے ہیں جبکہ لاشوں کو سڑنے سے بچانے کے لیے فارملڈی ہائیڈ استعمال کیا جاتا ہے، یہ ایک زہریلا مادہ ہے جو زمین میں سرائیت کرسکتا ہے۔
ریچل نے بطور فنکار مقامی طور پر حاصل شدہ اون، بید، برمبل اور آئیوی سے اپنی ایک دوست کے لیے کفن تیار کیا ہے۔
یہ کفن لاش کو دفنانے کے لیے تابوت کی ضرورت بھی ختم کردیتا ہے، ریجل کے لیے یہ ایک فن پارے سے بڑھ کر ہے اور انہوں نے اپنے لیے بھی ایسا ہی کفن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریچل یہ بھی چاہتی ہیں کہ ان کی قبر زیادہ گہری نہ کھودی جائے۔
برطانیہ میں عام طور پر قبریں 6 فٹ گہری ہوتی ہیں، یہ روایت 16 ویں صدی سے جاری ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد طاعون سے محفوظ رہنا تھا۔
ریچل کا کہنا ہے کہ 6 فٹ گہری قبر میں لاش دفنانے سے اس کے مکمل طور پر ڈی کمپوز ہونے میں 100 سال تک لگ سکتے ہیں اس وجہ سے وہ چاہتی ہیں کہ ان کی وفات کے بعد انہیں بایو ڈی گریڈ ایبل کفن میں کم گہری قبر میں دفنایا جائے کیونکہ زمین کی اوپری سطح کی مٹی میں لاش جلدی ڈی کمپوز ہوسکتی ہے۔