25 دسمبر ، 2024
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے گورنر ہاؤس کراچی میں مہاجر ثقافت کا دن ریاستی سطح پر منا کر ملک میں نئی تاریخ رقم کردی۔ اس تقریب نے مہاجر کمیونٹی میں ایک نیا ولولہ بھی پیدا کردیا۔
گورنر ہاؤس کے سبزہ زار کے سامنے موجود چبوترے پر قد آدم ڈیجیٹل اسٹیج بنایا گیا تھا جس کی اسکرینز گورنر ہاؤس کی چھت سے بھی بلند تھیں، چوڑائی اس قدر تھی کہ گورنر ہاؤس کی آخری دیوار سے بھی اسکرین نظر آرہی تھی۔
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے تقریب کو مہاجر شہدا کی فیملیز کے نام سے منسوب کیا اور کہا کہ موقع ملا ہے تو ایک مہاجر بیٹے نے بطور گورنر اپنا فرض آج پورا کردیا، پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں دینے والوں کی ثقافت جذبہ قربانی ہے، صبر اور شکر سے مسائل جھیلنا مہاجر ثقافت ہے اور یہ آج اسی ثقافت کا دن ہے۔
تقریب کا آغاز شام تقریباً 8 بجے اس ملی نغمے سے کیا گیا۔
تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے
اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے
اس موقع پر دستاویزی فلم دکھائی گئی جس میں قیام پاکستان اور اپنے عالی شان بھرے گھر چھوڑ کر بے سروسامانی کی حالت میں ٹرینوں اورپیدل راستوں سے بھارت سے مہاجرین کی پاکستان آمد کے مناظر پیش کیے گئے۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ہے محبت اپنا شیوا، یاروں کے ہم یار ہیں گیت پر اسٹیج پر فارمنس پیش کی جس میں بتایا گیا کہ قائداعظم کے نقش پا پر چلنے کے لیے مہاجرین نے کیا قربانیاں دیں، جس شعر پر حاضرین نے دل کھول کر تالیاں بجائیں، وہ درج ہے۔
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمھارے پاس جتنا ہے، ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مہاجر لیڈروں نے شہر اور ملک کو ترقی کی منزلوں پر پہنچایا ہے۔ موقع ملا تو ڈاکٹر فاروق ستار نے بطور میئر پشتونوں، کشمیریوں سب قومیتوں کی آبادیوں کو ریگولرائز کیا، یہ ہے مہاجر ثقافت۔
بولے مصطفی کمال کو موقع ملا تو انہوں نے کراچی میں انڈرپاسز کے جال بچھا دیے۔ یہ ہے مہاجرکلچر، گورنر عشرت العباد کو موقع ملا تو انہوں نے 14 سال سب کو ساتھ لے کر چل کردکھایا، یہ ہے مہاجروں کی تہذیب۔
گورنر سندھ نے کہا کہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مجھ جیسے شخص کو گورنر سندھ بنایا، تو میں نے مہاجر ثقافت اس انداز میں پیش کی کہ کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو، اسے آئی ٹی میں داخلہ دیا، 50 ہزار طلبہ وطالبات یہاں گورنر ہاؤس میں پڑھ رہے ہیں، ساڑھے 4 لاکھ طلبہ آن لائن پڑھ رہے ہیں۔
کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ مہاجر حق پرست گورنر کو موقع ملا تو 9 لاکھ افراد کو راشن بانٹا، ہزاروں افراد کو موٹر سائیکلیں، رکشے، لیپ ٹاپ اور آئی فون دیے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ ان کی ثقافت، تہذیب اور تربیت اجازت نہیں دیتی تھی کہ سب سے پہلے مہاجر ثقافت کا دن منائیں، اس لیے پنجابی، سندھی اور گلگت بلتستان کی ثقافت کا دن پہلے منایا، اب پاکستانی قوم کبھی نہیں بھولے گی کہ مہاجر بیٹے نے 77 سال کی تاریخ میں پہلی بار ریاستی سطح پریہ دن گورنر ہاؤس میں منایا ہے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ یہ دل خوشی سے باغ باغ تو ہے مگر اس منصب پر ڈھائی سال بیٹھ کر دل بھرا ہوا بھی ہے۔ اس ماں کو کیا جواب دوں جس کا بچہ ڈمپر سے کچل کر مار دیا جاتا ہے؟ لوگوں کے گھروں میں پانی نہیں آرہا۔ جو نوجوان 16 سال کی محنت کے بعد ڈگری لے کر سڑکوں کی خاک چھان رہا ہے، اس کی ماں کو کیا جواب دوں؟ اس شہر کی سڑکیں اُسی طرح ٹوٹی ہوئی ہیں جیسے ہمارے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔
گورنر سندھ نے کہا کہ جب سےآیا ہوں جانے کا سن رہا ہوں، ازراہ تفنن کہا کہ احمد چنائے نے 3 بار شیروانی سلوائی ہے۔ سوچتا ہوں اس خوشی میں کہ مہاجر دن منایا ہے، استعفی ہی دے دوں، گورنر نے مجمع سے پوچھا کہ آیا وہ استعفی دے دیں، پھر اچانک نسرین جلیل پر نشانہ سادھا۔ قارئین کو علم ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے نسرین جلیل کو بعض حلقے گورنر سندھ بنانا چاہتے تھے مگر ناکام رہے تھے۔
گورنر نے پوچھا کہ نسرین باجی کیا استعفی دے دوں؟ ایم کیو ایم کی خاتون رہ نما کے دل میں کیا تھا یہ تو وہ خود اور ان کا خدا ہی جانتا ہے مگر بھرے مجمع میں وہ مسکرائیں اور کامران ٹیسوری کو استعفی دینے سے روک دیا۔گورنر سندھ نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی کہہ رہے ہیں کہ وہ میرے پیچھے کھڑے ہیں اور آج مہاجروں کی یہاں شرکت نے ثابت کردیا ہے کہ پوری مہاجر قوم بھی میرے پیچھے کھڑی ہے۔
اس موقع پر گورنر سندھ نے کہا کہ اس ملک میں ایک شخص کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران خان جیل سے باہر نہیں آئے گا تو یہ ملک چل ہی نہیں سکتا، فیصلہ کرلو کہ عمران خان نے ملک چلانا ہے یا یہاں موجود لوگ ملک چلائیں گے۔
گورنر سندھ نے کہا کہ اگر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ملک کی معیشت کی حفاظت کررہے ہیں تو پوری قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ لیکن ہر بار کی طرح ہمارے ساتھ ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اس شہر کے لیے اقتدار اور وسائل کا وعدہ چاہیے۔
چئیرمین ایم کیوایم خالد مقبول صدیقی نے خطاب کا آغاز یہ کہہ کر کیا کہ عظیم تر برصغیر کی سب سے زیادہ ارتقا یافتہ تہذیب کے نمائندوں، سفیران تمدن، پاسبان ثقافت، وارثان پاکستان اور نگہبان پاکستان آپ کو سلام ہو۔
خالد مقبول صدیقی بولے اردو نہ ہوتی تو پاکستان گونگا نظر آتا۔ ہم اس کلچر کے نگہبان ہیں، اس کےخلاف کوئی آنکھ اُٹھے گی تو جھکا دیا جائے گا۔ آواز اٹھے گی تو مقابلہ کیا جائے گا۔ یہ مہاجروں کا کلچر نہیں، پاکستان کا کلچر ہے۔
خالد مقبول صدیقی نے جذبات کی شدت میں بعض اشعار کے مصرعے آگے پیچھے پڑھ دیے۔ تاہم یہاں اشعار درست انداز میں لکھے جارہے ہیں تاکہ قارئین کے ذہن میں اصل شعر رہیں۔
اچھا ہے اسی صورت حالات میں رہنا
دن شہر میں اور رات مضافات میں رہنا
یہ شہر سمندر کے کنارے پہ ہے آباد
اس شہر میں رہنا بھی تو اوقات میں رہنا
خالد مقبول صدیقی نے اپنی تقریر کا اختتام کچھ ان الفاظ میں کیا۔ مہاجروں کا نصیب نصرمن اللہ وفتح قریب ہے۔ آپ کو مٹانے والے ہمت ہار چکے۔
سنو کہ راہیں پکارتی ہیں
چلو کہ منزل بلا رہی ہے
انیس قائم خانی نے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری سے اظہار تشکر کرتے ہوئے مجمع سے کہا کہ آج کی تقریب کا سہرا کامران خان ٹیسوری کے سر ہے۔
انیس قائم خانی نے کہا کہ میں پاکستانی بن کر آیا تھا۔ پاکستانی بن کر رہنا چاہتا ہوں لیکن سندھی، پنجابی،بلوچ، پشتون،گلگتی اور کشمیری اگر اپنی قومیتوں پر فخر کرتے ہیں تو مجھے مہاجر ہونے پر فخر ہے لیکن ہمارے آباؤ اجداد نے بتایا ہے کہ ہمیں سب سے زیادہ پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔
نسرین جلیل نے کہا کہ ان کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ گورنر سندھ اس قدر شاندار تقریب کا اہتمام کریں گے۔ ایم کیوایم رہنما نے کہا کہ مہاجرین قائداعظم کا ہراول دستہ تھے، ملک کا انتظام سنبھالا، ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ بولیں کہ شاید ہم نے اپنا کردار ادا نہیں کیا مگر مہاجروں کی نوجوان نسل پاکستان کو اعلٰی مقام دے گی۔
ایم کیوایم رہنما سید حیدر عباس رضوی نے خطاب میں کہا کہ اللہ کے بعد وہ گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور چئیرمین ایم کیوایم خالد مقبول صدیقی کے شکر گزار ہیں جن کی وجہ سے آج ہم مہاجر قومی دن منارہےہیں۔
آزادی کی جدوجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے حیدر عباس رضوی نے کہا کہ 1756 میں سراج الدولہ کے دور میں جنگ آزادی کی ابتدا ہوئی۔ پھر سو برس بعد 1857 کی جنگ آزادی لڑی گئی اوراس کے 90 برس بعد قائد اعظم کی قیادت میں قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کی گئی۔ سلام ہے ان کو جنہوں نے کالا پانی کی سزا جھیلی، دن دیہاڑے درختوں سے لٹکائے گئے مگر آزادی حاصل کی۔
حیدر عباس رضوی نے کہا کہ ہماری قربانیوں کا سفرآج بھی جاری ہے۔ جب تک مہاجروں کا ایک بچہ بھی زندہ ہے، پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔انہوں نے بھی اپنی جوشیلی تقریر میں اشعار کا سہارا لے کر مجمع کو گرمایا۔
ساتھ چلنا ہے تو تلوار اٹھا میری طرح
مجھ سے بزدل کی حمایت نہیں ہونے والی
اب کہ جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہوگا
ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی
ایم کیوایم رہ نما فاروق ستار نے کہا کہ مہاجر قومی دن گورنر ہاؤس میں منا کر کامران ٹیسوری نے متحرک مہاجر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔گورنر سندھ کی وجہ سے ہماری کشتی کنارے لگ گئی، آج سینہ چوڑا کرکے کہہ سکتا ہوں کہ ہم بھی فرزندگان پاکستان ہیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ وہ صاحبان ریاست کے بھی شکر گزار ہیں کہ 78 سال بعد پاکستان میں یہ دن منایا گیا اور اس طرح ایک اکائی کی جداگانہ شناخت ممکن ہوئی۔
انہوں نے تقریر کا اختتام پاکستان زندہ باد اور نعرہ مہاجر سے کیا جس پر مجمع نے پُر زور انداز میں پاکستان زندہ باد اور جئے مہاجر کے نعرے لگائے۔
گورنر ہاؤس میں منعقد اس مہاجر ثقافت ڈے میں شرکت کے لیے شہر بھر سے لوگ گاڑیوں پر پاکستان کے قومی پرچم اور متحدہ قومی موؤمنٹ پاکستان کے پرچم لہراتے ہوئے شریک ہوئے جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ مہمانوں کے لیے کرسیوں کا انتظام تھا جب کہ لوگوں کی بڑی تعداد فرشی نشست پر بھی بیٹھی نعرے لگاتی رہی۔ اس موقع پر نوری آباد میں واقع سوسائٹی میں موجود اسی گز رقبے کے پچاس پلاٹ خوش نصیبوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے دیے گئے۔
تقریب میں موجود ایم کیوایم کے کئی کارکنوں کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی غیر معمولی بات ہے کہ یہ کام ایم کیو ایم کے بڑے بڑے رہنماؤں نے اس وقت بھی نہ کیا جب کراچی اور حیدر آباد سمیت سندھ کے کئی شہروں میں صرف متحدہ کا تُوتی بولتا تھا، یہ خوشگوار لمحہ ہے کہ یہ کام ایک ایسے گورنر کامران ٹیسوری نے کیا ہے جنہیں ایک عرصے تک خود ایم کیوایم نے اون تک نہیں کیا تھا۔
اس موقع پر پاکستان کے معروف گلوکار ساحر علی بگا اور ایوا بی کی پرفارمنس نے شرکا کے دل موہ لیے۔ دونوں ہی گلوکاروں نے اپنے مشہور گانے گائے تو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موسیقی کی دھنوں پر رات گئے تک جھومتے رہے۔
مہاجر ثقافت ڈے کا اختتام رنگارنگ آتشبازی سے کیا گیا۔